برادر محمود فیاض کے لئے ناچیز کی جانب سے ایک عدد آسکر ایوارڈ۔ جی چاہتا ہے، یہ تحریر ہر روز شیئر کروں۔ دیکھیں کیسی عمدگی سے کانسپٹ کلیئر کر دیا! ۔۔۔ اسے شیئر کرنا عین عبادت ہے۔ ❤
نظر نیچی رہے، اور لہجہ شرمندہ
————————————————————————–
لوگ اکثر پریشان ہوتے ہیں کہ خیرات کسی مستحق کو دینا چاہیے مگر لے دے کے رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سڑکوں، مسجدوں کے باہر، اور گلیوں میں امڈ آنے والے بھکاریوں کے کوئی اور مستحق ملتا ہی نہیں۔ یعنی انکو ڈھونڈنا مشکل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم صدقہ و خیرات کو سر سے بوجھ کی طرح اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ تو کم سے کم فاصلے پر کم سے کم وقت میں یہ فرض ادا ہوجائے، یہی کافی ہے۔
اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی خیرات کسی مستحق کے کام آئے تو کچھ ہمت کیجیے۔ انکو ڈھونڈیے۔ ان تک خود جائیے اور زرا شرمندگی سے نظر جھکا کر امدار کا تھیلا پکڑا کر الٹے قدموں لوٹ آئیے۔
مستحق کون ہیں؟ جو نہیں مانگتے مگر پیٹ کاٹتے ہیں۔ جن کے بچے حسرت سے پکوڑوں سموسوں کو دیکھتے ہیں۔ جو گھر میں ہمسائیوں سے آنے والی خوشبو سے بے چین ہوجاتے ہیں، مگر تھوک نگل کر رات والا سالن کھالیتے ہیں۔ جن سے مسجد میں پوچھیں کہ کیا حال ہے تو وہ مصنوعی ڈکار مار کر کہتے ہیں، اللہ کا شکر، اتنا کھایا، بدہضمی ہونے والی ہے۔
پہلے حق تو جاننے والوں میں مستحقین کا ہے، یقین کریں وہ رشتہ دار جو غریب ہیں مگر آپ سے انکی بنتی نہیں، ان کی مدد کرنا دہرے ثواب کا باعث ہوگا۔ پہلا حق رشتے داروں کا ہے۔
کریم یا اوبر کی بائیک کال کریں۔ جب بندہ آ جائے تو رائیڈ کینسل کردیں، اور اسکو راشن کا تھیلا، یا نقد خیرات دے دیں۔ جو بندہ پہلی نوکری کے بعد گھر جانے کی بجائے سو سو روپے کے لیے بائیک پر سواریاں ڈھوتا ہے، اس کے بچوں کو آپکی خیرات کی ضرور لگے گی۔
اپنے علاقے کے پرائیویٹ اسکولوں سے رابطہ کیجیے۔ یہاں جو بچیاں پڑھاتی ہیں، ان میں دس میں سے نو کے گھر میں برے حالات ہیں۔ وہ مجبوری میں چار پانچ ہزار کی جاب کے لیے سارا دن کام کرتی ہیں۔ ان سفید پوش گھرانوں میں راشن یا نقدی بھیجیے۔
چھوٹی گلیوں میں دکاندار کے پاس جائیے، عصر کے بعد۔ آپ کو ضرور کچھ لوگ ملیں گے جو ادھار لیتے ہونگے۔ انکا ادھار چکا دیجیے۔ ہوسکے تو دکاندار سے پوچھ کر کسی لمبے ادھار والے مستحق کو بلا کر اسکا ادھار چکا دیجیے۔
چھوٹے تندوروں پر روٹی لگانے والے، ویٹر اور صفائی والے سب اتنا ہی کماتے ہیں کہ انکے گھر فاقوں سے بچ سکیں، انکو بھی آپ کی خیرات کی ضرورت ہے۔ ان میں سے اکثر خیرات لینے سے انکار کر دیں گے۔ انکی ٹھوڑی پکڑ لیجیے، منت کر کے “تحفے کے طور” پر دے دیجیے۔
مسجدوں میں بوڑھوں کے لباس سے اندازہ ہوجائیگا۔ نہیں تو جوتے سے۔ واپس جاتے ہوئے سلام کرکے ہزار پانسو کی خیرات تحفتاً ان کو تھما دیجیے۔ وہ بچوں کے لیے ضرور کچھ ایسا لے جائینگے، جن کی انکو ضرورت ہے۔
بازاروں میں ریڑھیوں یا ہاتھوں پر سودا بیچتے ہوئے معمر لوگوں کو دیجیے۔ مگر ایسے لوگوں کو نہیں جو پنسلیں ہاتھ میں لیے اصل میں بھیک ہی مانگتے ہیں۔ انکو بس پانچ دس دیجیے کہ دینے کا بھرم رہے۔ مگر جو نہیں مانگ پاتے، انکو دینا بہتر ہے۔
یہ چند باتیں ذہن میں آئی ہیں، باقی آپ خود بھی ایسے ہی مزید طریقوں سے لوگوں کو پہچان سکتے ہیں کہ جن کو مدد کی ضرورت ہے مگر وہ اپنی غیرت کے ہاتھوں محنت کے علاوہ کوئی مدد قبول نہیں کرتے۔ انکو اصرار کر کے دیجیے۔ بس نظر نیچی رہے، اور لہجہ شرمندہ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: محمودفیاضؔ
Mahmood Fiaz