بیوی کے حقوق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی کے حقوق جو اللہ نے مقرر کیے ہیں ان میں سے میں ان کا ذکر کررہی ہوں جن کو ہمارے معاشرے میں دینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ہے ۔
1- ایسا گھر بیوی کو پرووائڈ کرنا جہاں وہ آذادی کے ساتھ بے پردہ گھوم سکے ۔ کوئی نامحرم اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر میں قدم نا رکھ سکتا ہو ۔
2- بیوی کے کھانے پینے کا خیال رکھنا شوہر کا فرض اور بیوی کا حق ہے ۔ یعنی کہ بیوی پکا ہوا کھانا کھاتی ہے ۔ خالی کچا گوشت اور کچی سبزیاں لاکر پکڑا دینے سے بیوی کا حق ادا نہیں ہوجاتا ہے ۔ بلکہ بیوی کو پکا ہوا کھانا مہیا ہونا چاہئے دلیل : (جو خود کھاو وہی اپنی بیوی کو کھلاو )۔ ہمارے یہاں شوہر کو کھانا پروائڈ کرنا بیوی کا فرض کہا جاتا ہے جو کہ اسلام میں کہیں نہیں ہے ۔ ہاں اگر بیوی اپنی خوشی سے شوہر کے لیے کچھ پکاتی ہے تو وہ اس کی مرضی ہے اس کی ذمہ داری بیوی پر نہیں ڈالی جاسکتی ہے ۔ شوہر کی خدمت کرنا جس میں شوہر کے کپڑے استری کرنا اور باقی کام بھی بیوی اپنی مرضی یا خوشی سے کرے تو کرے لیکن یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے ۔
3 – ساس سسر کی عزت کرناصرف بیوی کے فرایض ہیں ۔ لیکن ساس سسر کے لیے روازانہ تین وقت کھانا تیار کرنا بیوی کا فرض نہیں ہے ۔ اسی طرح نند اور دیور کے لیے کھانا بنانا بھی بیوی کا فرض نہیں ہے ۔
4 – بچوں کی ذمہ داری بھی بیوی کے اوپر حمل ، پیدایش اور پیدائش کے بعد دوسال تک ہیں اس کے بعد بچے کی تربیت کی ذمہ داری باپ کی ہے ۔ ماں کو کسی طور بچوں کی تربیت پر ملامت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ دلیل : باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے اس میں بہترین تحفہ اچھی تعلیم و تربیت ہے ۔ یہاں تربیت میں ماں کا ذکر کہیں نہیں ہے ، ماں باپ کے ساتھ مددگار ضرور ہے لیکن ذمہ داری باپ کی ہے۔
قرون اولیٰ کی خواتین کو یہ تمام حقوق ملے ہوئے تھے ۔ وہ الگ گھر(حجرہ جس میں کچن وغیرہ شامل تھا )میں رہتی تھیں ان کے گھر میں ان کی اجازت کے بغیر کوئی نامحرم داخل نہیں ہوسکتا تھا ۔ ہر گھر میں لونڈی مہیا تھی جو کھانا پکایا کرتی تھیں سوائے ایک دو گھر کے حضرت فاطمۃ اور حضرت اسماؑ کے بارے مین پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ یہ دونوں گھر کے کام کرتیں تھیں تو ان کے شوہر ان سے معذرت کرتے تھے اور ان کے لیے لونڈی مہیا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ازواج مطہرات کو روٹیاں پکانی نہیں آتیں تھیں لیکن انہوں سیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ گھر آتے اور ان کو کھانے کی طلب ہوتی تو یوں کہتے کہ ” اگر گھر میں کچھ کھانے کو موجود ہے تو دے دو ” اور اگر گھر میں کچھ نا ہپوتا اور ازواج کہہ دیہتیں کہ گھر میں کچھ نہیں ہے تو آگے کوئی سوال نا کرتے کہ گھر مین ہے نہیں یا تم نے پکایا نہیں ۔ بلکہ وہ خاموشی سے گھر سے چلے جاتے تھے ۔
کسی نے اپنی بیوی کو کھانا پکانے اور گھر کے کام پر کبھی ملامت نہیں کیا صحابیات اپنی مرضی سے گھر کے کام کرتیں تھیں ۔ شوہر کے گھر والوں کے کام کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا اس دور میں حضرت اسماء سو سال کی تھہیں جب حضرت عباللہ بن زبیر خود ان کے گھر آتے کھانا پکاکر اپنی ماں کو کھانا کھلاتے تھے ۔ اپنی بیوی کی ڈیوٹی نہیں لگائی تھی انہوں نے ۔ اور جہاں تک بچوں کی تربیت کی بات ہے بیٹے تو باپ کے ساتھ گھر سے باہر تربیت حاصل کرتے تھے ۔ اور بیٹوں کی شادی جلد ہوجاتی ان کی تربیت پہر ان کے شوہر کرتے تھے ۔
فرض وہ ہوتا ہے جس کا حکم ہو اور جس کے نا کرنے پر گناہ ملتا ہو ۔ جیسے پانچ وقت کی نماز فرض ہے اگر آپ دن میں ایک نماز بھی چھوڑتی ہیں تو اس کا گناہ ملتا ہے ۔ گھر کے کام کرنا اور شوہر کے لیے کھانا پکانا فرض نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ بیوی اپنی خوشی سے اور شوہر کو خوش کرنے کے لیے کھانا پکائے گی لیکن اگر وہ کھانا نا پکائے کسی بھی وجہ سے تو اس کو گناہ نہیں ملے گا لیکن اگر بیوی بھوکی ہو شوہر نے اس کے لیے گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نا رکھا ہو اور خود باہر سے کھا کر اجائے تو شوہر گناہ گار ہوگا ۔ صحابیات گھر کے کام اپنی مرضی سے کرتیں تھیں ان کے شوہر ان کو حکم نہیں دیتے تھے ۔ بلکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لونڈی لینے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہی بھیجا تھا ۔ حضرت زبیر بن العوام حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے اس بات پر معافی مانگا کرتے تھے کہ وہ ان کو لونڈی یا غلام مہیا نہیں کرسکتے ہیں ۔ اگر گھر کے کام کرنا بیوی کے فرائض تھے تو صحابہ اکرام اپنی بیویوں کے گھر کے کام کرنے پر اتنا پریشان کیوں ہوتے تھے اور ان کو کسی طرح لونڈی مہیا کرنے کی کوشش کیوں کرتے تھے ۔
اپ لوگ یہ کیون سوچ رہے ہین کہ اگر بیوی کے لیے گھر کے کام اور کھانا پکانے پر فرض کا ٹیگ ہٹ جائے گا تو کوئی عورت گھر کے کام نہیں کرے گی ۔ گھر کو سجانا سنوارنا اور نت نئے کھانے پکانا عورت کا شوق ہوتا ہے ۔ اس شوق پر فرض کا ٹیگ لگا کر اس کو عورت پر بوجھ بنادیا گیا ہے ۔ شوہر کی خدمت کرنا نفلی عبادت کی طرح ہے ۔ نفلی عبادت انسان اپنی خوشی سے کرتا ہے اور اگر نا کرسکے تو کوئی گناہ نہین ہوتا اور کوئی ملامت نہیں کرسکتا ہے ۔
ماں باپ تین قسم کے ہوتے ہیں:
1) ماں باپ
2) بوڑھے ماں باپ
3) بیمار بوڑھے ماں باپ ۔
پہلی قسم تو بیٹے کی شادی کے وقت ماں باپ کی عمر 50 سال بھی ہو تو وہ اپنے آپ کے ساتھ بوڑھے کا صیغہ لگاتے ہیں لیکن ایسے ماں باپ انڈیپنڈنٹ رہ سکتے ہیں ہاں بیٹے کو ان کے پاس ریگولر ملنے جانا چاہئے لیکن ان والدین کو بیٹے کی خدمت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔
دوسری قسم بوڑھے ماں باپ ۔ میں یہ بات نہیں مانتی ہوں کہ بڑھاپا بذات خود بیماری ہوتی ہے ۔ بوڑھے بھی اسی طرح بیمار ہوتے ہیں جس طرح جوان ہوتے ہیں ۔ یعنی کہ کچھ دنوں کے لیے ۔ میں نے 90 سال کے ایسے بوڑھے ماں باپ دیکھے ہیں جو پوری تندرستی کے ساتھ پورے گھر پر حکومت کرتے ہیں اور بیٹا اور بہو ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے ہیں اور اگر بیٹا بہو اپنی مرضی کرنے کی کوشش کریں بھی تو ان والدین کی طرف سے ایک ہی جملہ آتا ہے کہ ہمارے مرنے کا انتظار کرو اور یہ جملہ اتنے گرجدار آواز میں بولا جاتا ہے کہ بیٹا بہو کی جان نکلنے لگتی ہے ۔ یہ والدین میں انڈیپنڈنٹ رہ سکتے ہیں ان کے پاس بھی ریگولر وزٹ کے لیے جائے ۔
تیسری قسم ہے بیمار بوڑھے والدین ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ والدین کو اولاد آخری وقت یعنی مرض لاموت کے وقت خدمت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دوارانیہ ذیادہ سے ذیادہ دو سال ہوتا ہے ۔ ایسے والدین کو بیٹے کو چاہئے کہ اپنے گھر میں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت خود کرے ۔ سسر بہو کے محرم ہوتے ہیں وہ ساتھ تو رہ سکتے ہیں لیکن خدمت کرنا اولاد کا ہی فرض ہے ۔ ان دو سال کے پیچھے اپنی بیوی کے 20 سال ضائع نا کریں ۔
میں نے ایسی بھی کوئی انہونے حقوق نہیں لکھ دیے ہیں کہ آپ لوگ پریشان ہی ہوگئے ہیں ، بس ذرا ہندوانہ معاشرت اور سوچ سے الگ ہوکر سوچیں تو آپ کو یہ باتیں اتنی بھی انہونی نہیں لگیں گی…