تنوری
تنوری ،تنور کا اسم صغیر ہے۔کوئی پچاس برس پہلے دیہاتی گھروں میں توے پر روٹی پکانے کا رواج بہت ہی کم تھا۔ہر گھر میں کم وبیش ایک تنوری ہوتی جو گھر کے صحن میں یا چھت پر ہوتی۔ عام طور پر صبح وشام تنوری میں افراد خانہ کے حساب سے ایک ہی بار روٹیاں پکا لی جاتی تھیں۔۔۔جو شام تک تر و تازہ رہتی۔دیسی گندم خراس سے پسوا کر مزے دار غزائیت سے بھر پور آٹا تیار کروایا جاتا۔پھر اس کو بڑی محنت اور جان سے گوندھا جاتا اور بہت اہتمام سے تنوری میں روٹیاں پکائی جاتی تھیں ۔
اکٹر اوقات ہمسائے کی خواتین بھی ایک ہی تنوری پہ روٹیاں پکانے آ جاتی تھیں ۔صبح کے وقت ان روٹیوں کو دیسی گھی یا مکھن سے چوپڑا جاتا۔کبھی کبھار روٹی کی اوپری پرت میں انگلی سے سوراخ کرکے اس میں دیسی گھی یا مکھن ڈال کر روٹی کو دو بار تہہ کر دیا جاتا۔اس سارے عمل کو چونگا لگانا کہتے تھے جو بہت ذائقے والا ہوتا۔کئ دفعہ سادی روٹی کو گرم گھی میں مسل کر چوری بنا لی جاتی،وہی چوری جو ہیر اپنے رانجھے کے لئیے لے کر جاتی تھی۔ تنوری کی گرم گرم روٹیوں کے ساتھ بھنڈی توری، بھرے کریلے ، آم اور دودھ کی لسی بہت ہی مزہ دیتے۔برسات کا موسم ہوتا تو دوپہر میں آٹے میں بیسن، پیاز اور ہری مرچ ڈال کر میسی روٹیاں پکائی جاتی جو چاٹی کی لسی کے ساتھ عجب مزہ دیتی تھیں۔بعض اوقات آٹے میں گڑ ڈال کر میٹھی روٹیاں پکانے اور کھانے کا شوق پورا کر لیا جاتا۔گھر کی چنگیر کبھی بھی روٹیوں سے خالی نہ ہوتی۔اماں کہتی تھیں، پتر! بھرے گھر کی چنگیر کبھی خالی نہیں ہونی چائیے۔۔۔نہ۔جانے کب اور کس وقت کوئی بھوکا آ جائے۔۔۔روٹی ہو تو سالن مل ہی جاتا ہے۔