Development of Kids!

* *بچونکی تربیت کاانوکھا انداز*

گھر کا ماحول

ایک خاتون کہتی ہیں کہ میں ایک بار میں اپنی ایک پرانی دوست کو ملنے اس کے گھر گئی ۔
میری وہ دوست مجھے بہت چاہ سے ملی اور خوشی کا اظہار کیا ۔ ہم دونوں کافی عرصہ بعد ایک دوسرے سے مل کر بہت خوشی محسوس کر رہی تھیں ۔
کچھ دیر ان کے گھر بیٹھنے کے بعد ان کی ایک چھوٹی بیٹی آئی اور کہنے لگی :
امی امی ! کیا ہم آج جنت میں گھر نہیں بنائیں گے ؟
میں نے پہلے تو اسے سنا ان سنا کر دیا

مگر وہ بچی بار بار وقفے وقفے سے اپنی امی سے یہ بات پوچھنے لگی حتی کہ اس کی دوسری بہن بھی جو اس سے کچھ بڑی تھی آ گئی اور اس نے بھی یہی سوال کیا
تب ان کی ماں نے بچوں کا اصرار اور میرے چہرے پر ظاہر ہونے والی اجنبیت کو اچھی طرح بھانپ لیا تو بولیں : کیا تم دیکھنا چاہتی ہو کہ یہ بچے کیا کہہ رہے ہیں اور کس طرح یہ جنت میں گھر بناتے ہیں ؟
میں نے کہا بالکل ، کیوں نہیں ۔ میں تو ضرور دیکھنا چاہوں گی ۔

چنانچہ پھر وہ خاتون ایک چٹائی پر بیٹھ گئیں اور اس کے بچے اور بچیاں جو چار پانچ سال سے لے کر دس بارہ سال تک کے تھے سب اس کے ارد گرد بیٹھ گئے ۔
پھر ان کی ماں نے پوچھا : ہاں بھائی اب ہم جنت میں گھر بنائیں ؟

سب بچوں نے بیک زبان ہو کر کہا : جی ۔
چنانچہ پھر ان کی ماں نے اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورۃ الاخلاص پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ ساتھ وہی سورۃ الاخلاص دھرانے لگے اور دس بار انہوں نے یہ سورۃ الاخلاص پڑھ لی
پھر ان کی ماں اپنے بچوں سے بولی : اب یہ بتاوں کہ اپنے اپنے اس محل میں کوئی خزانہ بھی رکھنا چاہتے ہو ؟
سب بچوں نے کہا : ہاں

تو پھر ماں نے لا حول و لا قوۃ الا باللہ پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ یہی کلمات دھرانے لگے ۔
پھر ماں نے پوچھا : ہاں تو اب تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم ﷺ تمہاری بات کا جواب بھی دیں ؟ اور پھر تم قیامت کے دن رسول کریم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر سے پیو اور پھر تمہیں کبھی پیاس بھی نہ لگے ؟
سب بچوں نے پھر جواب ہاں میں دیا
تو اب ماں نے دورد شریف پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ درود شریف پڑھنے لگے ۔
پھر انہوں نے کچھ دیر سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کا بھی وِرد کیا ۔

آخر میں ان کی ماں نے کہا : ٹھیک ہے بچو ۔ آج جنت میں گھر بنانے کا کام پورا ۔ اب جاو اور اپنا اپنا کام کرو شاباش ۔
مہمان خاتون یہ سب کچھ حیرت انگیز نظروں سے دیکھتی رہی ۔ جب وہ اس عمل سے فارغ ہو گئیں تو میزبان خاتون کہنے لگی :
دیکھیں یہ تو آپ بھی جانتی ہیں کہ سب بچے یہ چاہتے ہیں کہ وہ کچھ دیگر اپنی ماں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی ماں سے کچھ سنیں اور دل بہلائیں ۔

چونکہ ہمارے یہ بچے آج کل کارٹون وغیرہ بھی دیکھتے ہیں اور اس میں یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح کارٹون کے کردار اپنا اپنا گھر بناتے ہیں اور اس میں اپنے لیے خزانے بھی جمع کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ کیوں نہ میں اپنے بچوں کا یہ شوق بھی پورا کروں اور ان کے لیے اچھی تربیت بھی ہو جائے جو نہ صرف ان کی دنیا کو خوشگوار بنائے بلکہ ان کی آخرت کو بھی سنوار دے ۔
بس یہی سوچ تھی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ ترکیب ڈال دی اور اس کا اثر تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔

وہ مہمان خاتون یہ سب دیکھ کر عزم کر کے اٹھی کہ وہ بھی اپنے گھر میں ایسا ماحول بنائے گی۔۔۔۔۔
*کیوں کہ بچے پال لینا کمال نہیں۔۔۔۔۔۔*
*بچے تو جانور بھی پال لیتے ہیں۔۔۔۔۔*
*تربیت کرنا جانوروں اور انسانوں میں فرق کرتا ہے۔۔۔۔*

*جہاں تک ہو سکے اس واقعے کو پھیلائے گی تاکہ خیر کے متلاشی اور لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں*

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *