I want to stay Muslim!

مجھے مسلمان رہنے دو..

میں لالٹین میں مٹی کا تیل ڈلوانے گھر سے نکلا اور بھاگتا ہوا مسجد کے پاس والی دوکان پہ پہنچا، مسجد کے دروازے پہ دس بارہ لوگ بستروں سمیت کھڑے تھے جن میں اکثریت بزرگوں کی تھی۔یہ شام اور عشاء کی نماز کا درمیانی وقت تھا اور اس دن ہمارے گاؤں کے امام مسجد مولوی خیر دین گاؤں میں نہیں تھے۔مولوی خیر دین صاحب سفید ریش والے خوبصورت بزرگ تھے، ان نوے سالہ بزرگ نے میرے پیدا ہونے پہ مجھےگھٹی بھی دی تھی۔۔وہ قدرے تبلیغی جماعت والوں کے خلاف تھے اس لیے گاؤں والوں نے پہلے تبلیغی جماعت سے سوال جواب کیے پھر مسجد میں آنے کی اجازت دی کہ کل چلے جانا۔میں لالٹین میں تیل ڈلوا کے گھر آیا اور پھر بھاگ کے مسجد تبلیغی جماعت کو دیکھنے پہنچ گیا۔میری عمر مشکل سےآٹھ سال تھی، مجھے انہوں نے کہا کہ بیٹا دودھ خریدنا ہے کہاں سے ملے گا تو میں بھاگ کے پھر گھر گیا جو مسجد کے پاس تھا اور اماں سے پوچھا تو اماں نے دیجکی بھر کے دودھ بھجوا دیا۔دوسرے دن گاؤں والوں نے کہا یہ بچوں کو وہابی کر دیں گے تو جماعت کو جانے کا کہہ دیا۔۔جماعت چلی گئی مگر میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ کیا وہابی کو دودھ دینا جائز ہے یا صرف مولوی کو ہی دینا ہوتا ہے۔کچھ دن بعد ہم اماں کے ساتھ نانی کے گاؤں گئے جہاں کافی تعداد میں شیعہ رہتے تھے اور محرم آتے ہی ان کے گھر نیاز شروع ہوئی میں بچوں کے ساتھ کھانے گیا تو مجھے کہا گیا کہ مت کھانا شیعہ ہو جاؤ گے۔میں بھاگ کے واپس آ گیا“ کچھ مہینے بعد ایک دن گاؤں کی مسجد میں ایک داڑھی والے بھائی دھواں دار تقریر کر رہے تھے سپیکر میں کہ کشمیر کے جہاد کے لیے چندہ دو۔اچانک مولوی صاحب آئے اور مائیک لے کے کہا آپکو کسی نے بتایا نہیں یہ مسجد سنی بریلویوں کی ہے وہابیوں کا آنا منع ہے۔میں نے ایک بڑے چاچا سے پوچھا کہ وہابی تو وہ جماعت والے تھے تو جواب ملا نہیں وہ دیوبندی تھے۔۔اگلے مہینے گیارہویں کا دودھ لینے مولوی کا بھتیجا آیا تو دودھ دیتے ہوئے اماں سے دودھ گر گیا۔اس نے کہا چاچی گیارہویں کا دودھ مت گرانا بخشش نہیں ہوتی۔میں بڑا ہوتا گیا اور شیعہ سنی وہابی کے تزکرے بھی سنتا گیا۔جب میٹرک کے امتحان قریب آئے تو میں پاس ہونے کے لیے رمضان کے آخری عشرے اعتکاف بیٹھ گیا کہ دعا کر سکوں۔وہاں قرآن کا ترجمہ پڑھا تفسیر بھی تو ذہن تفرقوں سے کچھ اونچا سوچنے لگا، پاس بھی ہو گیا اور سنی وہابی سے آگے نکلنے کا دل بھی کرتا گیا۔مطالعہ سمجھاتا رہا کہ شان اہل بیت اور شان صحابہ کامیابی کا لازمی جز ہیں۔گیارہویں کا لنگر کسی مولوی سے زیادہ کسی مسکین کے پیٹ کے لیے زیادہ بہتر ہے۔تبلیغی جماعت محبتوں کی جماعت ہے ان کی بات سننی ہے اور انکا بھی مخصوس انداز اور اپنے فرقے سے بہت آگے سوچنا ضروری ہے۔میں مسلمان پیدا ہوا مگر حقیقی اسلام کی روح تک پہنچنے کے لیے مضبوط فرقوں کی دیوار پھلانگنا چاہتا ہوں۔میں ایسے مدرسے کی تلاش میں ہوں جہاں بچوں کے ذہن میں اسلام کی سلامتی سکھائی جائے نہ کہ اپنے مسلک کے دائرے میں رہنا بتایا جائے۔میں ایسے ممبر دیکھنا چاہوں گا جہاں سے سادہ عوام کو من گھڑی کہانیاں سنا کے واہ واہ کی بجائے قرآن حدیث سکھایا جائے۔میں ایسی خانقاہوں میں جانا پسند کرونگا جہاں تصوف اور محبت کے رویے نظر آئیں، کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا ہم بھنگ چرس پیتے ملنگوں کو سمجھا پائیں گے کہ صفائی نصف ایمان ہے پھر آگے راستہ کھلتا ہے؟ کیا ہم شیعہ کی نفرت میں امام حسین رضہ کے مقابلے میں یزید کی شان بیان کرنے والوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ حسینی راستہ حق ہے۔کیا ہم مولا علی رضہ کی محبت کے لبادے میں پیارے نبی ﷺ‎ کے صحابہ پہ زبان درازی کرنے والوں کو بھی سمجھا سکتے ہیں؟ اپنے اپنے آئیڈیل ہو سکتے ہیں مگر جنت دوزخ کا فیصلہ قرآن کی تعلیمات اور عمل پہ ہو گا۔۔بس۔۔باقی ہم خسارے میں ہیں۔۔کچھ لوگ مجھے وہابی سمجھتے ہیں، میرے بیٹے کا نام علی امام ہے تو کچھ مجھے شیعہ مانتے ہیں” خدارا مجھے یہ دیواریں پھلانک کے مسلمان رہنے دو“
نوٹ: تحریر کو مثبت لیا جائے کہیں غلطی ہو تو تصحیح چاہوں گا.
تحریر: سلطان ثاقب بلوچ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *