قرنطینہ کیا ہے ؟ صرف 15 دن کیوں؟

قرنطینہ کیا ہے ؟ صرف 15 دن کیوں؟

دنیا میں جب انسان نے سفر کے سمندری ذریعے ایجاد کر لیے۔ بحری جہاز بنائے اور براعظم براعظموں سے رابطے میں آ گئے۔ یہ بحری رابطے ایک خطے کی بیماریاں دوسرے خطوں تک پہنچانے لگے۔ یورپ میں طاعون پھیلا تو اس نے ایشیا اور افریقہ کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔

ٹی بی آئی تو یہ میڈی ٹیرین سی تک پوری دنیا میں لاشیں بچھاتی چلی گئی۔ چیچک‘ خناق‘ کالی کھانسی اور خسرہ آیا تو یہ بھی چند ماہ میں پوری دنیا میں پھیل گیا‘ انسان نے ان اموات سے سیکھا آپ ہر شخص کو فوری طور پر اپنے شہر‘ اپنے ملک میں داخل نہ ہونے دیں چناں چہ سمندروں کے کنارے احاطے بنا دیے گئے اور بحری جہازوں سے اترنے والے لوگوں اور عملے کے لیے40 دن ان احاطوں میں رہنا لازم قرار دے دیا گیا‘ یہ 40 دن کیوں؟

انسان نے تجربوں سے سیکھا کہ ہمارے جسم میں چالیس دن بعد ہرچیز تبدیل ہو جاتی ہے‘ صرف انسان کے دماغ‘ دل اور آنکھوں کے خلیے مستقل ہوتے ہیں‘ یہ نئے نہیں بنتے‘ باقی سارا جسم خود کو بناتا اور توڑتا رہتا ہے۔

یہ شکست و ریخت زیادہ سے زیادہ چالیس دن میں مکمل ہو جاتی ہے چناں چہ اگر انسان کے جسم میں کوئی بیماری موجود ہے تو یہ چالیس دن میں سامنے آ جاتی ہے لہٰذا سمندروں کے کنارے آباد شہروں کی انتظامیہ مسافروں اور عملے کو 40 دن تک احاطے میں رکھتی تھی جس کے بعد صحت مند لوگوں کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی اور بیمار لوگوں کو واپس بھجوا دیا جاتا تھا‘ چالیس دن کا یہ سلسلہ فرانس میں شروع ہوا تھا‘ فرنچ زبان میں چالیس کو قروئین اور دن کو ٹائین کہا جاتا ہے چناں چہ اس مناسبت سے چالیس دن کے اس قیام کو قوارنٹائین/ کیرنٹائن (قرنطینہ) کہا جانے لگا۔

فرانس کا یہ تجربہ کام یاب ہو گیا۔ پوری دنیا نے اسے کاپی کیا اور متعدی امراض کنٹرول ہو گئے لیکن پھر کولمبس نے 1492ءمیں امریکا دریافت کر لیا جس کے ساتھ ہی وہ لوگ بھی دنیا سے مل گئے۔ یہ لوگ اس وقت تک جانوروں کے ساتھ رہتے تھے۔ان میں شادی کا انسٹی ٹیوٹ بھی موجود نہیں تھا۔ یہ جانوروں کی طرح اختلاط کرتے تھے لہٰذا ان میں وہ تمام بیماریاں موجود تھیں جن پر ہماری دنیا قابو پا چکی تھی چناں چہ کولمبس جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ امریکہ سے واپس لوٹا تویہ تمام بیماریاں بھی ساتھ لے آیا۔ 16 ویں اور17ویں صدی میں فرنچ، پرتگالی، ڈینش، برٹش اور ڈچ جہاز ران بھی امریکا پہنچ گئے۔

یہ بھی واپسی پر بیماریوں کے تحفے لے آئے چناں چہ ایک ایسا وقت آ گیا جب پورا یورپ بیمار ہو چکا تھااور یہ بیماریوں سے بچنے کے لیے فرانس کی طرح ہر پورٹ پر قرنطینہ بنا نے پر مجبور ہو گئے۔ بحری سفر کرنے والا ہر شخص اس قرنطینہ میں چالیس دن پورے کیے بغیر ملک میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ 1928ءمیں اینٹی بائیوٹک ایجاد ہو گئیں‘ بیماریوں کے بیکٹیریاز کا علاج ممکن ہو گیاجس کے بعد قرنطینہ ختم ہوتا چلا گیا‘ آج آپ کو کسی پورٹ پر 40 دن انتظار نہیں کرنا پڑتا۔

اس کی وجہ بلڈ ٹیسٹ اور اینٹی بائیوٹک ہیں‘ ڈاکٹر کسی بھی انسان کا خون ٹیسٹ کرتے ہیں‘ اگر بیماری نکل آئے تو اینٹی بائیوٹک کے ذریعے اس کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ چند گھنٹے بعد محفوظ ہو جاتا ہے یوں انسان نے بیماریوں کا تدارک کر لیا لیکن قدرت انسان اور انسانی تدبیر سے لاکھوں کروڑوں گنا تگڑی ہے چناں چہ اس نے نئے انداز سے حملے شروع کر دیے‘ بیکٹیریا کے بعد وائرس شروع ہو گئے‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے بیکٹیریا اور وائرس میں کیا فرق ہے؟۔

ہم انسانوں میں 37 ٹریلین باڈی سیلز ہوتے ہیں۔ ہمارا پورا وجود ان سیلز (خلیوں) سے بنتا ہے جب کہ ہمارے جسم میں 39 ٹریلین اچھے برے بیکٹیریاز ہوتے ہیں‘ اچھے بیکٹیریاز ہماری زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں‘ یہ خوراک ہضم کرتے ہیں‘ ہمارا خون بناتے ہیں اور ہمیں حرکت پر مجبور کرتے ہیں جب کہ برے بیکٹیریاز ہمیں بیمار بناتے ہیں۔ یہ ہمیں کم زور اور لاغر کرتے ہیں۔ ہمارے جسم کے برے بیکٹیریا (مثلاً پس پیدا کرنے والے بیکٹیریا) اینٹی بائیوٹک سے ہلاک ہو جاتے ہیں جب کہ وائرس بیکٹیریا سے مختلف ہوتا ہے۔

اس پر اینٹی بائیوٹک کا اثر نہیں ہوتا ‘یہ ہمیں بیمار کیے بغیر ختم نہیں ہوتا چناں چہ انسان کو جب بھی وائرل اٹیک ہوتا ہے تو ادویات اس پر بے اثر ہو جاتی ہیں‘ یہ صرف اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ہی بیماری سے باہر آتا ہے۔انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا‘ وائرس زیادہ سے زیادہ 14 دنوں میں اپنا آپ دکھا دیتا ہے‘ یہ بیماری کو ظاہر کر دیتا ہے‘ آپ نے دیکھا ہو گا حکومتیں کورونا سے متاثر ہونے والے علاقوں سے آنے والے لوگوں کو14دن قرنطینہ میں رکھتی ہیں۔

دوسرا دنیا میں اگر کرونا کا کوئی علاج موجود نہیں توپھر 97 فیصد مریض ٹھیک کیسے ہو جاتے ہیں؟ یہ لوگ اپنی قوت مدافعت کے ذریعے ٹھیک ہوتے ہیں‘ آرام کرتے ہیں‘ اچھی خوراک کھاتے ہیں اور ٹینشن فری رہتے ہیں چناں چہ یہ ایک دو ہفتوں میں صحت مند ہو جاتے ہیں باقی رہ گیا یہ سوال کہ حکومت انہیں ”آئسو لیشن“ میں کیوں رکھتی ہے تو اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے‘ مریض کرونا کے وائرس دوسرے لوگوں تک منتقل نہ کرسکیں چناں چہ میری آپ سے درخواست ہے آپ اگر خود اور دوسروں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ اپنے اپنے گھروں میں ایک کمرے کا قرنطینہ بنا لیں۔

جس بھی شخص میں کرونا کی علامتیں ظاہر ہوں فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کریں یا اسے اس کمرے تک محدود کر دیں۔ اس سے کسی قسم کا کوئی جسمانی رابطہ نہ رکھیں۔ فون پر بات کریں اور خوراک کا ذخیرہ بھی ایک ہی بار اسے دے دیں‘ مریض کمرے میں رہے‘ قرآن، نماز اور کتابیں پڑھے‘ ٹی وی دیکھے‘ موبائل فون پر ویڈیوز دیکھے‘ دس دس‘ پندرہ پندرہ گھنٹے سوئے اور ہر دس منٹ بعد دو گھونٹ پانی پیے‘ یہ ان شاءاللہ دس دن میں صحت یاب ہو جائے گا‘ ہمیں یہ بات پلے باندھنا ہوگی یہ ایک آفت ہے‘ یہ اپنے وقت پر ہی ختم ہو گی۔ آفتیں آتی ہیں اور اپنا وقت گزار کر چلی جاتی ہیں چناں چہ آپ بھی قرنطینہ میں بیٹھ کر اس کے جانے کا انتظار کریں‘ یہ کم ہو رہی ہے‘یہ ان شاء اللہ اگلے پندرہ دن میں ختم ہو جائے گی‘ آپ نے صرف 15 دن کا قرنطینہ لینا ہے اور بس۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *