Customise Consent Preferences

We use cookies to help you navigate efficiently and perform certain functions. You will find detailed information about all cookies under each consent category below.

The cookies that are categorised as "Necessary" are stored on your browser as they are essential for enabling the basic functionalities of the site. ... 

Always Active

Necessary cookies are required to enable the basic features of this site, such as providing secure log-in or adjusting your consent preferences. These cookies do not store any personally identifiable data.

No cookies to display.

Functional cookies help perform certain functionalities like sharing the content of the website on social media platforms, collecting feedback, and other third-party features.

No cookies to display.

Analytical cookies are used to understand how visitors interact with the website. These cookies help provide information on metrics such as the number of visitors, bounce rate, traffic source, etc.

No cookies to display.

Performance cookies are used to understand and analyse the key performance indexes of the website which helps in delivering a better user experience for the visitors.

No cookies to display.

Advertisement cookies are used to provide visitors with customised advertisements based on the pages you visited previously and to analyse the effectiveness of the ad campaigns.

No cookies to display.

میاں بیوی کا اسلام

“سسرالی معاشرہ اور بہو کی ذمہ داریاں”

ایک بات اور سمجھ لیجیۓ جس میں بڑی کوتاہی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ عورت کے ذمہ شوہر کا اور اسکی اولاد کا کھانا پکانا واجب نہیں ہے اور نا ہی شوہر کے جو ماں باپ اور بہن بھائ ہیں انکے لیۓ بھی کھانا پکانا اور انکی خدمت کرنا بطریق اولی واجب نہیں۔ ہمارے یہاں دستور چل پڑا ہے کہ جب بیٹے کی شادی ہوتی یے تو اس بیٹے کے ماں باپ سمجھتے ہیں کہ بہو پر بیٹے کا حق بعد میں ہے اور ہمارا حق پہلے ہے۔ لہذا یہ بہو ہماری خدمت ضرور کرے۔ چاہے بیٹے کی خدمت کرے یا نا کرے اور پھر اسکے نتیجے میں ساس بہو بھاوج اور نندوں کے جھگڑے ہوجاتے ہیں اور ان جھگڑوں کے نتیجے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔

خوب سمجھ لیجیۓ اگر والدین کو خدمت کی ضرورت ہے تو شرعی طور پر لڑکے کے ذمہ واجب ہے کہ وہ خود اپنے والدین کی خدمت کرے البتہ اس لڑکے کی بیوی کی سعادت مندی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے والدین کی خدمت بھی خوش دلی سے اپنی سعادت اور باعث اجر سمجھ کر کرے۔ لیکن لڑکے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت کرنے پر مجبور کرے جبکہ وہ خوش دلی سے انکی خدمت کرنے پر راضی نہ ہو۔ اور نا ہی والدین کے لیۓ جائز یے کہ وہ اپنی بہو کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ ہماری خدمت کرے، لیکن اگر وہ بہو خوش دلی سے اپنی سعادت مندی سمجھ کر اپنے شوہر کے والدین کی جتنی خدمت کرے گی انشاءاللہ اسکے اجر میں اضافہ ہوگا۔ اور اس بہو کو ایسا کرنا بھی چاہیۓ تاکہ گھر کی فضا خوشگوار رہے۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ دوسری جانب ساس، سسر اور شوہر کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر یہ خدمت انجام دے رہی ہے تو یہ اسکا حسن سلوک ہے، اسکا حسن اخلاق ہے۔ اسکے ذمہ یہ خدمت فرض واجب نہیں ہے لہذا انکو چاہیۓ کہ وہ بہو کی اس خدمت کی قدر کریں اور اسکا بدلہ دینے کی کوشش کریں۔ ان حقوق اور مسائل کو نا سمجھنے کے نتیجے میں آج گھر کے گھر برباد ہورہے ہیں۔ ساس بہو کی اور بھاوج اور نندوں کی لڑایئوں نے گھر کے گھر اجاڑ دیے۔ یہ سب کچھ اس لیۓ ہورہا ہے کہ ان حقوق کی وہ حدود جو رسول اللہﷺ نے بیان فرمائ ہیں وہ ہمارے ذہنوں میں موجود نہیں ہیں۔

حضرت اقدس مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ۔
(میاں بیوی کا اسلام)

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest


0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x