عمران کے گیارہ نکات ۔سلیم صافی
عمران خان صاحب پہلے بھی ہوشیار تھے لیکن اب تو ماشاء اللہ بابر اعوان ، فردوس عاشق اعوان، مصطفیٰ کھر،علیم خان ،فواد چوہدری اور اسی نوع کے دیگر ہوشیار لوگوں کی ہمرکابی نے ان کو اور بھی ہوشیار بنا دیا ہے ۔ تبھی تو انہوں نے اپنے گیارہ نکات کے منشور کے اعلان کے لئے پشاور کے بجائے لاہور کا انتخاب کیا۔ پشاور میں کرتےتو سامنے پانچ سال تک ان کی حکمرانی کو بھگتنے والے کھڑے ہوتے جبکہ اردگرد پشاور کی کھنڈر بننے والی سڑکیں اور گندگی سے اٹی گلیاں ہوتیں ۔ادھر سے پی ٹی آئی کے ایک تہائی ممبران اسمبلی کی ضمیر فروشی کا تعفن پھیلا ہوتا ۔ زیادہ امکان تھا کہ جلسہ گاہ سے کوئی حق پرست پختون کھڑا ہوکر ان کے منہ پر کہہ دیتا کہ خان صاحب کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے ۔ غالب امکان تو یہ ہے کہ اسٹیج پر براجمان ان کے دو تہائی ممبران اسمبلی ان کے اس منشور کو سن کر پکار اٹھتے کہ خان صاحب آخر جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ان دعوئوں کیلئے لاہور کے اسٹیج کا انتخاب کیا ۔بظاہر تو یہ بڑا پرکشش ایجنڈا ہے لیکن آئیے ان کے گیارہ نکات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ان پر کس طرح عمل ہوا۔
پہلا نکتہ :پہلے نکتے کے طور پر تعلیم کو بیان کرتے ہوئے خان صاحب نے وعدہ کیا کہ وہملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے حالانکہ الٹا پختونخوا میں ان کے دور میں طبقاتی نظام تعلیم کو غیرمعمولی فروغ ملا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے سابق صوبائی صدر اورا سپیکر اسد قیصر سے لے کر وزیرخزانہ مظفر سید تک ، کئی وزراء اور ممبران اسمبلی نجی اسکولوں کے مالک ہیں ۔ ان کی حکومت میں چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ تمام اچھی پوزیشنیں اسد قیصر صاحب اور وزیرخزانہ کے نجی اسکولز لے اڑے جبکہ سرکاری اسکولوں کے میٹرک کا رزلٹ اس قدر تباہ کن رہا کہ پشاور ہائی کورٹ کو سوموٹوایکشن لینا پڑاحالانکہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سو موٹوایکشن لینے سے ممکن حد تک اعراض کرتے ہیں ۔ دو سال سے تسلسل کے ساتھ خان صاحب جلسوںمیں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ والدین نے ایک لاکھ بچے نجی اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرادئیے اور دو سال سے میں اپنا یہ چیلنج ٹی وی اور اخبار میں دئیے جارہا ہوں کہ مجھے ایک ہزار بچے دکھائے جائیں تو میں صحافت چھوڑنے کو تیار ہوں لیکن آج تک کوئی مجھے نہیں دکھا سکا ۔اسی طرح یہ خان صاحب کی حکومت تھی کہ جس میں یونیورسٹیاں تباہی سے دوچار رہیں اور ان کی پارٹی کے لوگوں کی طرف سے من پسند وائس چانسلروں کی تقرری کی کوشش میں اکثر یونیورسٹیاں سالہا سال وائس چانسلروں کے بغیر چلتی رہیں جبکہ ایم این ایز کے ذاتی ایشوز کی بنیاد پر وائس چانسلروں کو فارغ کرنے کی سمریاں بھجوائی جاتی رہیں ۔ اے این پی کی بدنام حکومت میں صوبے کے اندر یونیورسٹیوں کی تعداد دگنی ہوگئی لیکن تحریک انصاف کے پانچ سالہ حکومت میں ایک بھی نئی یونیورسٹی نہ بن سکی ۔
دوسرا نکتہ: سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر کا معاملہ الگ ہے لیکن زمینی حقیقت جاننے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے موقع پر تبصرہ کافی ہے ۔ حالانکہ وہ اچانک چھاپہ نہیں تھا بلکہ ان کے دورے کا پہلے سے علم تھا اور ایک ہفتہ سے تیاری کی گئی تھی ۔ اسی طرح چیف جسٹس صاحب نے عام اسپتال کا نہیں بلکہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا دورہ کیا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ساری کی ساری توجہ صرف اسی ایک اسپتال پر مرکوز کی ہے ۔ اس کا نگران بھی خان صاحب نے امریکہ میں مقیم اپنے عزیز ڈاکٹر کو مقرر کیا اور چونکہ اسے ہی میڈیا اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دکھانا پڑتا ہے ، اس لئے سارے وسائل کا رخ اس کی طرف ہے۔ محکمہ صحت کی بدحالی کا یہ حال ہے کہ آج تک صوبے میں فرانزک لیب موجود نہیں اور سوات میں جو پنجاب کے ایک ڈاکٹر نے قائم کی تھی وہ بھی بند ہوگئی ۔ اسی لئے پشاور کی عاصمہ کےکیس میں پنجاب کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کیلئے کئی دن انتظار کرنا پڑا۔
تیسرا نکتہ :تیسرا نکتہ انہوں نے ریونیوبڑھانے کے ذریعے خودانحصاری کا بیان کیا ۔ اب زمینی حقیقت یہ ہے کہ پانچ سال کے دوران خیبرپختونخوا کی آمدنی میں پانچ فی صد بھی اضافہ نہیں ہوا۔ صوبے کی زیادہ آمدنی یا تو بجلی کے نیٹ پروفٹ سے ہوتی ہے یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے لئے ہائیڈل منصوبے شروع کئے جائیں ۔ا س مقصد کے لئے صوبے میں پیڈو کا محکمہ قائم ہے جس نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں خودمختاری مل جانے کے بعد کچھ منصوبوں پر کام شروع کیا تھا ۔ اسی بنیاد پر خان صاحب نے ابتدا میں تین سو پچاس ڈیم تعمیرکرنے کا وعدہ کیا تھا ۔تاہم تین سو پچاس تو کیا تین ڈیم بھی پانچ سالوں میں نہ بن سکے ۔ الٹا پارٹی کے ایک مرکزی رہنما نے اپنے ایک چہیتے کو غیرقانونی طور پر اس کا سربراہ بنا کر پیڈو کے محکمے کا بیڑہ غرق کردیا۔ پیڈو کا جو سربراہ بنایا گیا اس کو آرگنائزیشن نے قبول کیا اور نہ انہیں اس میدان میں کوئی تجربہ تھا ۔ پشاور ہائی کورٹ نے ان کی تقرری کو غیرقانونی قرار دیا او ران کے تحت ہونے والی دیگر غیرقانونی تقرریوں کا کیس زیرسماعت ہے ۔
چوتھا نکتہ :چوتھا نکتہ کرپشن فری پاکستان کا ہے ۔ گویا اسی طرح پاکستان کو کرپشن فری بنایا جائے گا جس طرح کہ خیبرپختونخوا کو بنایا گیا۔ یہاں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی مرضی کا قانون بنا کر اپنی مرضی کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔ انہوں نے جب خان صاحب کے قریبی لوگوں کی کرپشن کا سراغ لگا لیا تو الٹا انہیں فارغ کردیا گیا ۔ قانون کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر نئے سربراہ کا تقرر ضروری ہے لیکن دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا اور احتساب کے ادارے کا کوئی سربراہ نہیں ۔ وزیراعلیٰ نے ایک خاص بندے کو اس کا نگران مقرر کیا ہے ۔ پانچ سالوں میں اپنی کرپشن کا تو کیا اے این پی کے دور کے کسی کرپٹ کو بھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ اس احتساب کمیشن پر ابھی تک غریب صوبے کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ اب پتہ چلا ہے کہ خود اس ادارے کے اندر غیرقانونی تقرریاں ہوئی ہیں ۔ اسی طرح یہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ وزیراعلیٰ نے اپنے پی ایس او (یعنی سرونگ پولیس آفیسر) زیب اللہ خان کو اینٹی کرپشن کا بھی سربراہ مقرر کیا ۔ اسی طرح صوبائی محتسب بھی وزیراعلیٰ نے اپنا خاص بندہ مقرر کیا ہے ۔گویا پاکستان میں حکومت آئی تو موجودہ چیئرمین نیب کو فارغ کردیا جائے گا ۔ عون چوہدری کو احتساب بیور و کا قائمقام سربراہ مقرر کیا جائے گا اور وہ پانچ سال تک اسی منصب پر فائز رہیں گے۔ اسی طرح وفاقی محتسب کا عہدہ نعیم الحق کے پاس ہوگا جبکہ فواد چوہدری کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی کرسی پر بٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔
پانچوا ں نکتہ :پانچواں نکتہ سرمایہ کاری کا بیان کیا گیا ہے اور اس مد میں سیاحت پر خاص زور دینے کا کہا گیا ہے ۔ اب پاکستان کے اندر خیبرپختونخوا میں سیاحت کے سب سے زیادہ مواقع ہیں لیکن اگرگزشتہ پانچ سال میں ٹورزم کے فروغ کے لئے خیبرپختونخوا میں کوئی قدم اٹھایا گیا ہو تو ہمیں بھی بتایا جائے ۔ ہاں ایک منصوبہ سوات کے مالم جبہ کا میرے علم میں ہے ۔ یہاں وزیرتعلیم محمد عاطف کے قریبی عزیز کو چیئرلفٹ کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اور اس میں مبینہ طور پرایسی بے ضابطگیاں ہوئیں کہ معاملہ قومی احتساب بیور و میں چلا گیا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کے پی ہائوسز کو عوام کے لئے کھول دیا جائے گا لیکن نتھیاگلی کے کے پی ہائوس کا سب سے زیادہ استعمال خود خان صاحب نے کیا ۔ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ پی ٹی آئی کی پانچ سالہ حکومت میں کے پی ہائوس اسلام آباد، کے پی ہائوس نتھیاگلی اور دیگر سرکاری ریسٹ ہائوس کا سب سے زیادہ اور بے دریغ استعمال پی ٹی آئی کے وزراء، ایم پی ایز اور دیگر وابستگان کی طرف سے کیا گیا ۔
چھٹا نکتہ :چھٹا نکتہ زرعی ایمرجنسی کا بیان کیا گیا ۔ پہلا تماشہ تو یہ تھا کہ خان صاحب نے اپنی تقریر میں شوگر ملز مافیا کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال کا رونا رویا اورا سٹیج پر ان کے ساتھ اس مافیا کے سرغنہ بیٹھے ہوئے تھے لیکن خیبرپختونخوا میں تو وہ زراعت کے محکمہ کے لئے کوئی مناسب وزیر بھی نہ دلاسکے ۔ خیبرپختونخوا کا کسان اگر گزشتہ پانچ سالوں میں پنجاب کے کسان سے زیادہ تباہ نہیں ہوا تو کم بھی نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے آغاز میں یوں ہوا کہ پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے خیبرپختونخوا میں اپنے جی ایم او سیڈز کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کمپنی پر چین میں مکمل پابندی ہے جبکہ ہندوستان میںوہاں کی سپریم کورٹ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے ۔ چین اور ہندوستان سے مایوسی کے بعد یہ کمپنی پاکستان آئی ۔ پنجاب میں اس کو اجازت نہ ملی تو پی ٹی آئی کے اس مرکزی رہنما سے ملی بھگت کے بعد خیبرپختونخوا میں اس بیج کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا ۔زرعی ماہرین جانتے ہیں کہ کسی ملک یا صوبے کے لئے یہ کس قدر تباہ کن چیز ہے لیکن خیبرپختونخوا حکومت نے اس کے لئے بل تیار کیا اور اسے کابینہ نے پاس بھی کردیا۔ وہ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور چند روز بعد اس کی منظوری دی جانی تھی ۔ اس دوران خیبرپختونخوا کے تاجروں اور بیج پیدا کرنے والی مقامی کمپنیوں کے نمائندے میرے پاس آئے اور مجھے یہ معاملہ سمجھا دیا ۔ میں نےا سپیکر اسد قیصر صاحب کے ساتھ ان کا رابطہ کرایا اور ان کو سارا قصہ بتایا ۔ یوں وہ بل صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے سے رہ گیا ، ورنہ تو صوبے کی زراعت تباہ ہوجاتی ۔
آج کے کالم کے سائز میں مزید گنجائش نہیں۔ زندگی رہی تو باقی پانچ نکات کا جائزہ اگلے کالم میں ۔۔عمران کے گیارہ نکات ۔سلیم صافی
عمران خان صاحب پہلے بھی ہوشیار تھے لیکن اب تو ماشاء اللہ بابر اعوان ، فردوس عاشق اعوان، مصطفیٰ کھر،علیم خان ،فواد چوہدری اور اسی نوع کے دیگر ہوشیار لوگوں کی ہمرکابی نے ان کو اور بھی ہوشیار بنا دیا ہے ۔ تبھی تو انہوں نے اپنے گیارہ نکات کے منشور کے اعلان کے لئے پشاور کے بجائے لاہور کا انتخاب کیا۔ پشاور میں کرتےتو سامنے پانچ سال تک ان کی حکمرانی کو بھگتنے والے کھڑے ہوتے جبکہ اردگرد پشاور کی کھنڈر بننے والی سڑکیں اور گندگی سے اٹی گلیاں ہوتیں ۔ادھر سے پی ٹی آئی کے ایک تہائی ممبران اسمبلی کی ضمیر فروشی کا تعفن پھیلا ہوتا ۔ زیادہ امکان تھا کہ جلسہ گاہ سے کوئی حق پرست پختون کھڑا ہوکر ان کے منہ پر کہہ دیتا کہ خان صاحب کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے ۔ غالب امکان تو یہ ہے کہ اسٹیج پر براجمان ان کے دو تہائی ممبران اسمبلی ان کے اس منشور کو سن کر پکار اٹھتے کہ خان صاحب آخر جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ان دعوئوں کیلئے لاہور کے اسٹیج کا انتخاب کیا ۔بظاہر تو یہ بڑا پرکشش ایجنڈا ہے لیکن آئیے ان کے گیارہ نکات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں ان پر کس طرح عمل ہوا۔
پہلا نکتہ :پہلے نکتے کے طور پر تعلیم کو بیان کرتے ہوئے خان صاحب نے وعدہ کیا کہ وہملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے حالانکہ الٹا پختونخوا میں ان کے دور میں طبقاتی نظام تعلیم کو غیرمعمولی فروغ ملا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان کے سابق صوبائی صدر اورا سپیکر اسد قیصر سے لے کر وزیرخزانہ مظفر سید تک ، کئی وزراء اور ممبران اسمبلی نجی اسکولوں کے مالک ہیں ۔ ان کی حکومت میں چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ تمام اچھی پوزیشنیں اسد قیصر صاحب اور وزیرخزانہ کے نجی اسکولز لے اڑے جبکہ سرکاری اسکولوں کے میٹرک کا رزلٹ اس قدر تباہ کن رہا کہ پشاور ہائی کورٹ کو سوموٹوایکشن لینا پڑاحالانکہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سو موٹوایکشن لینے سے ممکن حد تک اعراض کرتے ہیں ۔ دو سال سے تسلسل کے ساتھ خان صاحب جلسوںمیں یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ والدین نے ایک لاکھ بچے نجی اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرادئیے اور دو سال سے میں اپنا یہ چیلنج ٹی وی اور اخبار میں دئیے جارہا ہوں کہ مجھے ایک ہزار بچے دکھائے جائیں تو میں صحافت چھوڑنے کو تیار ہوں لیکن آج تک کوئی مجھے نہیں دکھا سکا ۔اسی طرح یہ خان صاحب کی حکومت تھی کہ جس میں یونیورسٹیاں تباہی سے دوچار رہیں اور ان کی پارٹی کے لوگوں کی طرف سے من پسند وائس چانسلروں کی تقرری کی کوشش میں اکثر یونیورسٹیاں سالہا سال وائس چانسلروں کے بغیر چلتی رہیں جبکہ ایم این ایز کے ذاتی ایشوز کی بنیاد پر وائس چانسلروں کو فارغ کرنے کی سمریاں بھجوائی جاتی رہیں ۔ اے این پی کی بدنام حکومت میں صوبے کے اندر یونیورسٹیوں کی تعداد دگنی ہوگئی لیکن تحریک انصاف کے پانچ سالہ حکومت میں ایک بھی نئی یونیورسٹی نہ بن سکی ۔
دوسرا نکتہ: سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر کا معاملہ الگ ہے لیکن زمینی حقیقت جاننے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے موقع پر تبصرہ کافی ہے ۔ حالانکہ وہ اچانک چھاپہ نہیں تھا بلکہ ان کے دورے کا پہلے سے علم تھا اور ایک ہفتہ سے تیاری کی گئی تھی ۔ اسی طرح چیف جسٹس صاحب نے عام اسپتال کا نہیں بلکہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا دورہ کیا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ساری کی ساری توجہ صرف اسی ایک اسپتال پر مرکوز کی ہے ۔ اس کا نگران بھی خان صاحب نے امریکہ میں مقیم اپنے عزیز ڈاکٹر کو مقرر کیا اور چونکہ اسے ہی میڈیا اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دکھانا پڑتا ہے ، اس لئے سارے وسائل کا رخ اس کی طرف ہے۔ محکمہ صحت کی بدحالی کا یہ حال ہے کہ آج تک صوبے میں فرانزک لیب موجود نہیں اور سوات میں جو پنجاب کے ایک ڈاکٹر نے قائم کی تھی وہ بھی بند ہوگئی ۔ اسی لئے پشاور کی عاصمہ کےکیس میں پنجاب کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کرانے کیلئے کئی دن انتظار کرنا پڑا۔
تیسرا نکتہ :تیسرا نکتہ انہوں نے ریونیوبڑھانے کے ذریعے خودانحصاری کا بیان کیا ۔ اب زمینی حقیقت یہ ہے کہ پانچ سال کے دوران خیبرپختونخوا کی آمدنی میں پانچ فی صد بھی اضافہ نہیں ہوا۔ صوبے کی زیادہ آمدنی یا تو بجلی کے نیٹ پروفٹ سے ہوتی ہے یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے لئے ہائیڈل منصوبے شروع کئے جائیں ۔ا س مقصد کے لئے صوبے میں پیڈو کا محکمہ قائم ہے جس نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں خودمختاری مل جانے کے بعد کچھ منصوبوں پر کام شروع کیا تھا ۔ اسی بنیاد پر خان صاحب نے ابتدا میں تین سو پچاس ڈیم تعمیرکرنے کا وعدہ کیا تھا ۔تاہم تین سو پچاس تو کیا تین ڈیم بھی پانچ سالوں میں نہ بن سکے ۔ الٹا پارٹی کے ایک مرکزی رہنما نے اپنے ایک چہیتے کو غیرقانونی طور پر اس کا سربراہ بنا کر پیڈو کے محکمے کا بیڑہ غرق کردیا۔ پیڈو کا جو سربراہ بنایا گیا اس کو آرگنائزیشن نے قبول کیا اور نہ انہیں اس میدان میں کوئی تجربہ تھا ۔ پشاور ہائی کورٹ نے ان کی تقرری کو غیرقانونی قرار دیا او ران کے تحت ہونے والی دیگر غیرقانونی تقرریوں کا کیس زیرسماعت ہے ۔
چوتھا نکتہ :چوتھا نکتہ کرپشن فری پاکستان کا ہے ۔ گویا اسی طرح پاکستان کو کرپشن فری بنایا جائے گا جس طرح کہ خیبرپختونخوا کو بنایا گیا۔ یہاں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی مرضی کا قانون بنا کر اپنی مرضی کا سربراہ مقرر کیا گیا ۔ انہوں نے جب خان صاحب کے قریبی لوگوں کی کرپشن کا سراغ لگا لیا تو الٹا انہیں فارغ کردیا گیا ۔ قانون کے مطابق تین ماہ کے اندر اندر نئے سربراہ کا تقرر ضروری ہے لیکن دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا اور احتساب کے ادارے کا کوئی سربراہ نہیں ۔ وزیراعلیٰ نے ایک خاص بندے کو اس کا نگران مقرر کیا ہے ۔ پانچ سالوں میں اپنی کرپشن کا تو کیا اے این پی کے دور کے کسی کرپٹ کو بھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ اس احتساب کمیشن پر ابھی تک غریب صوبے کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ اب پتہ چلا ہے کہ خود اس ادارے کے اندر غیرقانونی تقرریاں ہوئی ہیں ۔ اسی طرح یہ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ وزیراعلیٰ نے اپنے پی ایس او (یعنی سرونگ پولیس آفیسر) زیب اللہ خان کو اینٹی کرپشن کا بھی سربراہ مقرر کیا ۔ اسی طرح صوبائی محتسب بھی وزیراعلیٰ نے اپنا خاص بندہ مقرر کیا ہے ۔گویا پاکستان میں حکومت آئی تو موجودہ چیئرمین نیب کو فارغ کردیا جائے گا ۔ عون چوہدری کو احتساب بیور و کا قائمقام سربراہ مقرر کیا جائے گا اور وہ پانچ سال تک اسی منصب پر فائز رہیں گے۔ اسی طرح وفاقی محتسب کا عہدہ نعیم الحق کے پاس ہوگا جبکہ فواد چوہدری کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی کرسی پر بٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔
پانچوا ں نکتہ :پانچواں نکتہ سرمایہ کاری کا بیان کیا گیا ہے اور اس مد میں سیاحت پر خاص زور دینے کا کہا گیا ہے ۔ اب پاکستان کے اندر خیبرپختونخوا میں سیاحت کے سب سے زیادہ مواقع ہیں لیکن اگرگزشتہ پانچ سال میں ٹورزم کے فروغ کے لئے خیبرپختونخوا میں کوئی قدم اٹھایا گیا ہو تو ہمیں بھی بتایا جائے ۔ ہاں ایک منصوبہ سوات کے مالم جبہ کا میرے علم میں ہے ۔ یہاں وزیرتعلیم محمد عاطف کے قریبی عزیز کو چیئرلفٹ کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اور اس میں مبینہ طور پرایسی بے ضابطگیاں ہوئیں کہ معاملہ قومی احتساب بیور و میں چلا گیا ۔ اقتدار میں آنے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کے پی ہائوسز کو عوام کے لئے کھول دیا جائے گا لیکن نتھیاگلی کے کے پی ہائوس کا سب سے زیادہ استعمال خود خان صاحب نے کیا ۔ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ پی ٹی آئی کی پانچ سالہ حکومت میں کے پی ہائوس اسلام آباد، کے پی ہائوس نتھیاگلی اور دیگر سرکاری ریسٹ ہائوس کا سب سے زیادہ اور بے دریغ استعمال پی ٹی آئی کے وزراء، ایم پی ایز اور دیگر وابستگان کی طرف سے کیا گیا ۔
چھٹا نکتہ :چھٹا نکتہ زرعی ایمرجنسی کا بیان کیا گیا ۔ پہلا تماشہ تو یہ تھا کہ خان صاحب نے اپنی تقریر میں شوگر ملز مافیا کے ہاتھوں کسانوں کے استحصال کا رونا رویا اورا سٹیج پر ان کے ساتھ اس مافیا کے سرغنہ بیٹھے ہوئے تھے لیکن خیبرپختونخوا میں تو وہ زراعت کے محکمہ کے لئے کوئی مناسب وزیر بھی نہ دلاسکے ۔ خیبرپختونخوا کا کسان اگر گزشتہ پانچ سالوں میں پنجاب کے کسان سے زیادہ تباہ نہیں ہوا تو کم بھی نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے آغاز میں یوں ہوا کہ پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے خیبرپختونخوا میں اپنے جی ایم او سیڈز کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کمپنی پر چین میں مکمل پابندی ہے جبکہ ہندوستان میںوہاں کی سپریم کورٹ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے ۔ چین اور ہندوستان سے مایوسی کے بعد یہ کمپنی پاکستان آئی ۔ پنجاب میں اس کو اجازت نہ ملی تو پی ٹی آئی کے اس مرکزی رہنما سے ملی بھگت کے بعد خیبرپختونخوا میں اس بیج کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا ۔زرعی ماہرین جانتے ہیں کہ کسی ملک یا صوبے کے لئے یہ کس قدر تباہ کن چیز ہے لیکن خیبرپختونخوا حکومت نے اس کے لئے بل تیار کیا اور اسے کابینہ نے پاس بھی کردیا۔ وہ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور چند روز بعد اس کی منظوری دی جانی تھی ۔ اس دوران خیبرپختونخوا کے تاجروں اور بیج پیدا کرنے والی مقامی کمپنیوں کے نمائندے میرے پاس آئے اور مجھے یہ معاملہ سمجھا دیا ۔ میں نےا سپیکر اسد قیصر صاحب کے ساتھ ان کا رابطہ کرایا اور ان کو سارا قصہ بتایا ۔ یوں وہ بل صوبائی اسمبلی سے پاس ہونے سے رہ گیا ، ورنہ تو صوبے کی زراعت تباہ ہوجاتی ۔
آج کے کالم کے سائز میں مزید گنجائش نہیں۔ زندگی رہی تو باقی پانچ نکات کا جائزہ اگلے کالم میں ۔۔
great