کرونا بیماری کی تین اقسام یا لیول ہیں – کرونا میں مبتلا ہونے والے ٨١ فیصد لوگوں میں یہ بہت ہلکی بیماری ہوتی ہے’ جسے “معمولی یعنی لیول ون” بیماری کہتے ہیں جس میں نمونیہ نہیں ہوتا بلکہ بس بخار ، خشک کھانسی’ آنکھوں اور ناک سے پانی بہنے کے ساتھ ساتھ پیٹ میں درد اور پیٹ کا خراب ہونا بھی ہوتا ہے – یہ وہ علامات ہیں جن کو زیادہ تر لوگ “موسم کی تبدیلی’ ٹھنڈا شربت یا سکنجبین پینے یا باہر سے کھانا کھانے ” سے منسلک کر کہ اگنور کردیتے ہیں اور کسی قسم کا کرونا ٹیسٹ نہیں کرواتے اور نہ ہی خود کو الگ کرتے ہیں – طبی لحاظ سے یہ مریض خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن اپنے آس پاس بہت سے لوگوں میں یہ انفیکشن پھیلاتے چلے جاتے ہیں جن میں سے کچھ کو “دوسری یا تیسری” قسم کا کرونا ہوجاتا ہے اور وہ ہسپتال یا موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں –
یہی تعداد سب سے زیادہ منظر عام پر نہیں آتی اور معاشرے میں پھیلاؤ کا سبب بنتی رہتی ہے- اس وقت یہ کالم پڑھنے والے بہت سے لوگوں میں لیول ون کرونا کی علامات موجود ہونگی جن کو وہ لاعلمی میں کچھ اور سمجھ کر پس پشت ڈال رہے ہونگے – زیادہ تر لوگ ان علامات کو موسم کی تبدیلی ‘ کھانے پینے اور فلو سے منسلک کر کہ اگنور کر دیتے ہیں – حتی کہ کچھ ڈاکٹر حضرات بھی ان علامات پر کرونا کا سوچنے کی بجاۓ ملیریا’ فلو اور الرجی قرار دیکر مریض کو سکون کرنے کا مشورہ دیتے ہیں – لیکن مسلہ اس عام آدمی کا ہوتا ا رہتا ہے اور کبھی بھی ٹیسٹ کروا کر منظر عام پر نہیں آتا – اس سے اس کی اپنی ذات کو شاید اتنا نقصان نہیں پہنچتا کیوں کہ جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ یہ کم سنجیدہ کرونا ہوتا ہے اور ٨١ فیصد کیسز میں مریض ساتویں آٹھویں دن خود ٹھیک ہوجاتے ہیں – لیکن ان سات دنوں میں ان کے ارد گرد جو ستر لوگ متاثر ہوتے ہیں وہ شاید اس صورت میں متاثر نہ ہوتے اگر اس مریض کا ٹیسٹ ہوجاتا اور مثبت آنے کے بعد اس مثبت رزلٹ کے خوف سے وہ خود کو گھر میں بند کر لیتا – یاد رکھیے ! انسان کی فطرت ہے کہ وہ دیکھے پر ہی یقین کرتا ہے – جیسے آج بہت سے وہ لوگ جو کل تک اس کو “ڈرامہ ” کہتے تھے اپنے گھروں میں کیسز دیکھ کر اب اس کو “آفت ” سمجھنے لگ گیے ہیں – اسی طرح جب تک انسان مثبت ٹیسٹ نہیں دیکھتا تو اس بیماری کی سنجیدگی پر بھی اس طرح سے یقین نہیں کرتا اور دل ہی دل میں اس کو موسم کی تبدیلی قرار دیکر یا تو اپنی روز مراه کی روٹین جاری رکھتا ہے یا پھر وہ والا “قرنطینہ” کرتا ہے جس میں ماسک ناک سے زیادہ “ماتھے” پرلگا کرونا کو منہ چڑا رہا ہوتا ہے –

بد قسمتی سے حکومت اعدادو شمارکا یہ موازنہ ہی نہی کرسکی کہ اس پہلے لیول والے مریضوں کو جن کو کسی بھی طرح ہسپتال کی ضرورت نہیں ہوتی آئسولیشن میں ڈالنے کے خوف کی وجہ سے اس آئسولیشن کے فائدے سے زیادہ نقصان ہورہا ہے کہ لوگ ٹیسٹ ہی نہیں کروارہے – اب تک بیس کروڑ کے ملک پاکستان میں بس پانچ لاکھ آٹھ ہزار ٹیسٹ ہویے ہیں جن میں 61200 (یعنی ١٢ فیصد ) کیس مثبت آیے ہیں – جن لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ یہ بیماری بس امریکا میں ہی ہے اور پاکستان میں لوگ بہت صاف ستھرے ہیں ان کو بتاتا چلوں کہ امریکا میں اب تک ایک کروڑ ستاون لاکھ چھیاسٹھ ہزار ٹیسٹ کیے گیے ہیں جس کی وجہ سے اٹھارہ لاکھ کیس سامنے آیے ہیں – یعنی شرح امریکا میں بھی ١٢ فیصد یعنی پاکستان جیسی ہی ہے پاکستان سے زیادہ نہیں ہے –

٢.#منفیکروناٹیسٹ: کرونا کا ٹیسٹ اگر منفی بھی آجاۓ لیکن اوپر والی علامات موجود ہوں تو بھی اس کو کرونا کہا جاتا ہے- اکثر میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہمارے مریض کا ٹیسٹ بھی منفی تھا پھر بھی “قصائی ڈاکٹروں نے قرضہ معاف کروانے کیلئے کرونا کی تشخیص کردی” – دوستو ! کرونا سے قرضے معاف کرنے کا اختیار رکھنے والےملکوں یعنی امریکا اور انگلینڈ کی اپنی معیشت تباہ حال ہے انہوں نے کیا کرونا کی میتوں کی خریداری کرنی- خدا را – جب کوئی ایسی لمبی لمبی چھوڑ رہا ہو تو اس سے” سنی سنائی ” نہیں ثبوت مانگا کریں – کوشش کریں کہ سورہ الحجرات کی اس آیت پر عمل ہوجایے :

“اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ”

یہ ایک میڈیکل فیکٹ ہے کہ کرونا ٹیسٹ کی آیکوریسی سو فیصد نہی ہے – اگر منہ میں سے نمونہ لیکر ٹیسٹ کیا جائے تو آئیکوریسی بس 30 فیصد جب کہ اگر ناک میں سے نمونہ لیا جائے تو 71 فیصد ہے – سو یہ بھی ضروری ہے کہ لیب کو یہ کہا جائے کہ ناک سے نمونہ لے جس کو “Nasopharyngeal Swab ” کہتے ہیں – ان اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ اگر واقعی میں کرونا کے 100 مریض ہوں جن کو اندر سے کرونا ہو تو 71 میں ٹیسٹ مثبت آتا ہے جب کہ باقی 29 میں اگرچہ ٹیسٹ منفی آتا ہے لیکن ان میں بیماری منفی نہیں بلکہ بیماری مثبت یعنی موجود ہوتی ہے اور خون کے نمونوں اور ایکسرے میں ظاہر ہوتی ہے بس ناک کے نمونے میں ڈیٹیکٹ نہی ہوتی – میڈکل کی زبان میں اس کو ” فالس نیگیٹو ” کہا جاتا ہے – اور اس فالس نیگیٹو کی وجہ سے ہی ایکسرے اور خون کے دیگر ٹیسٹوں کی بنیاد پر مریض کو “کرونا ” لیبل کیا جاتا ہے جس پر عوام میڈیکل کی زبان سے انجان ہونے کے باوجود بھی ناراض اور غضبناک نظر آتی ہے –

آئسولیشن: ایسے تمام مریضوں کو اگر ٹیسٹ کروانے سے کسی بھی وجہ سے خوف ہے تو ان سے التماس یہ ہے کہ وہ ٹیسٹ نہ بھی کروائیں لیکن خود کو ایک کمرے میں باقی خاندان سے الگ کرلیں ….ہر وقت ماسک لگا کر رکھیں… باقی خاندان کو بھی ماسک لگانے کا کہیں… جو ان کو کھانا پانی دینے آیے اس کو این 95 ماسک لگانا بہتر ہے – اپنے گھر میں کسی باہر والے عزیز یا دوست کو آنے سے منع کردیں- ٨١ فیصد کیسز میں یہ سب علامات سات سے آٹھ دن میں ٹھیک ہوجاتی ہیں اور اضافی آکسیجن یعنی ہسپتال کی ضرورت نہیں پڑتی- اور ان علامات کےمکمل ٹھیک ہونے کہ تین دن بعد یعنی کل دسویں یا گیارویں دن یہ آئسولیشن ختم کر کہ معمول کی زندگی شروع کی جاسکتی ہے-

ایکسرے: تمام لیول ون مریضوں کو ہلکی علامات کے باوجود ایک دفعہ چھاتی کا ایکسرے ضرور کروانا چاہیے تا کہ اس میں نمونیا دیکھا جاسکے – یاد رکھیے – اس بیماری میں بغیر سانس اکھڑنے یا نمونیا کی علامات کے بھی آکسیجن لیول خاموشی سے گرتا ہے جو خطرناک ثابت ہوتا ہے – اس کو “سائلنٹ ہائپوکسیا یا خاموش آکسیجن کا گرنا” کہاجاتا ہے –

الٹا_لیٹنا: کرونا کی علامات والے مریضوں کو الٹا لیٹ کر سونے کی عادت اپنانی چاہیے – کوشش کرنی چاہیے کہ دن میں 12 سے 15 گھنٹے الٹا یعنی پیٹ کے بل لیٹیں- میڈیکل کی زبان میں اس کو ” پروننگ ” کہا جاتا ہے اور اس سے پھیپھڑوں کے غیر متاثرہ حصوں میں آکسیجن کی رسائی بہتر ہوتی ہے جس سے خون میں آکسیجن کا لیول اور مریض کا سانس بہت بہتر ہوتا ہے – لیکن یاد رکھیے ! سانس کا اکھڑنا ایک خطرے کی علامت ہے اور ہسپتال جانا لازمی ہے –

خطرناک_علامات: یاد رکھیں- ہلکے کرونا کی علامات کے ظاہر ہونے کے بعد ساتواں آٹھواں دن بہت اہم ہوتا ہے کیوں کہ انہی دنوں میں طبیعت بگڑنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے – ان سات آٹھ دنوں میں اگر ان میں سے کوئی بھی “علامت ” نظر آیےتو پولیس یا کسی بھی اور قسم کے خوف کو پس پشت ڈال کر فوری ہسپتال جانا لازمی ہے : سانس چڑھنا یا اکھڑنا ..سینے میں درد ہونا …ذہنی توازن بگڑنا یا غنودگی چھا جانا. …چکر آنا اور بلڈ پریشر گرنا-

فیملی_قرنطینہ: کرونا کے مریضوں کے خاندان جو ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ان کو بھی چودہ دن تک خود کو عام عوام سے الگ رکھنا ضروری ہے – اس کو “قرنطینہ” کہتے ہیں – یہ “آئسولیشن ” سے مختلف ہے —- مریض جس میں علامات ہوں اس کو الگ کرنا “آئسولیشن” کہلواتا ہے اور باقی لوگ جن میں کوئی علامت نہ ہو بس وہ مریض کے ساتھ رہتے ہوں یا ان سے گزشتہ ہفتے دس دن میں ملے ہوں ان کو الگ کرنا “قرنطینہ ” کہلواتا ہے – ان لوگوں کو مریض سے آخری ملاقات سے لیکر چودہ دن تک خود کو مانیٹر کرنا چاہیے اورخود کو عام عوام سے الگ کرنا چاہیے – .کیونکہ اگر ان کو بھی کرونا ہوا ہے تو اس کی علامات مریض سے آخری ملنے کے بعد دس سے چودہ دن میں ظاہر ہوجاتی ہیں- اگر چودہ دن بعد بھی وہ نارمل رہیں تو اس کا مطلب ہے ان میں کرونا داخل نہی ہوا ہے یا ان کی مدافعت نے ان کو بچالیا ہے – میں جانتا ہوں پاکستان میں چودہ دن تک کام کاج چھوڑ کر قرنطینہ ہوجانا بہت مشکل ہے – بہت دفعہ دفتر یا ملازمت والے اجازت بھی نہیں دیتے اور اس کو ڈرامہ سمجھتے ہیں – اس صورت میں اس انسان کو جس کا کوئی عزیز کرونا کا شکار ہوا ہے اور وہ اس سے حالیہ دنوں میں ملا ہے اس کو ماسک لگا کر باقی لوگوں سے چھے فٹ کا فاصلہ کم سے کم ضرور رکھنا چاہیے- اگرقرنطینہ کے دوران مریض والی علامات انے لگیں تو انہی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے جو اوپر لیول ون یعنی ہلکے کرونا والے مریض کیلئے لکھی ہیں .

اگر ہمارا “آئسولیشن اور قرنطینہ ” کےاوپر بیان کئے گیے میڈیکل اصولوں پر عمل کرنے کا جی نہ کرے تو میرے نبی صلی الله علیھ وسلم کی اس حدیث کو سن لینا چاہیے جس میں آپ نے میڈیکل کے اصول ” قرنطینہ ” کے بارے میں دنیا کو چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا جب کہ دنیا نے اٹلی میں چودھویں صدی میں پہلی بار”لفظ قرنطینہ ” ایجاد کیا تھا :
” جو آدمی وبائی مرض (طاعون) کے علاقے میں ہو وہ اس علاقے کو نہ چھوڑے اور جو اس علاقے سے باہر ہے وہ اس کی طرف نہ جاۓ “
#پلازما_ڈونیشن: ٨١ فیصد لوگ جو خود ٹھیک ہوجاتے ہیں اگر ان میں ٹیسٹ کے ذریعے کرونا ثابت ہوا ہو تو ٹھیک ہوجانے کے ایک ماہ بعد یہ اپنا پلازما یعنی خون ڈونیٹ کرکہ سنجیدہ یعنی دوسری اور تیسری قسم والے کرونا کے مریضوں کی جان بچا کر بغیر ایم بی بی ایس کے مسیحا بن سکتے ہیں – اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے خون میں وہ اینٹی باڈی ہوتی ہے جو صحت مند ہونے بعد بھی کیی سال تک خون میں رہتی ہے اور کرونا کے وائرس کو مار سکتی ہے –

81 فیصد کیسز خود بخود ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں لیکن اس دوران وہ اپنی بیماری سے لاعلمی کی وجہ سے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں – اس تحریر کو صدقہ جاریہ سمجھ کر پھلائیں- اپنوں میں بیگانوں میں’ منبروں میں مجالس میں ‘ بیٹھکوں میں چوپالوں میں’ میلادوں میں جنازوں میں اس کا واعظ کریں – کیوں کہ اس طرح اگر ہم نے ایک بھی جان بچالی تو یاد رکھیے قران کریم کے مطابق ہم نے پوری انسانیت کی جان بچالی 🙏🏿-

وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا ۗ
(اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے ساری انسانیت کی

قلمکیجسارتڈاکٹروقاص_نواز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *