حلال وحرام کا فرق
نمازِ فجر میں، نبی رحمت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ہی سلام پھیرتے، حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر چل دیتے. باقی صحابہ کرام محفل نبوی میں کچھ دیر بیٹھے رہتے. جب تواتر سے یہ ہوا تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی . اگلے دن سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو دجانہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آواز دی، ابو دجانہ!
ابو دجانہ نے کہا، لبیک یا رسول اللہ.
دریافت کیا گیا کہ کیا بات ہے آج کل سلام پھیرتے ہی مسجد سے چلے جاتے ہو؟
ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی کھجور کی فصل پک رہی ہے . میرے پڑوسی کے گھر میں لگے کھجور کے درخت کی کچھ شاخیں میرے گھر کے اوپر ہیں. رات میں پرندوں کی وجہ سے کچھ پکی کھجوریں میرے گھر کے صحن میں گر جاتی ہیں، میں اس لئے نماز کے بعد جلدی کرتا ہوں کہ بچوں کے جاگنے سے پہلے وہ کھجوریں سمیٹ کر پڑوسی کے صحن میں رکھ دوں . کہیں میرے بچے لاعلمی میں وہ مال نہ کھا لیں جو ان کیلئے جائز نہیں.
نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ۔ ابودجانہ تمہیں بشارت ہو، اللہ رب العزت تمہاری اس ادا سے اتنا خوش ہوا کہ تمہارے لئے جنت کی بشارت ہے!
زمین انسان کے رزق کا مسکن ہے . ہم اپنے اہل و عیال کے رازق نہیں بلکہ محافظ ہوتے ہیں. ہمیں ان کے لئے رزق حلال کو ممکن بنانا اور پہنچانا ہوتا ہے ۔ان کو حلال حرام کا فرق سمجھانا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ خود باشعور ہو جائیں.*
آج مالِ حرام ہمارے معاشرے کا المیہ ہے اور لوگ جواز بھی بچوں کو بناتے ہیں کہ جی بچوں کیلئے کرنا پڑتا ہے۔
اللّٰہ کریم ہم سب کو حلال و حرام میں فرق کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں اور ہمیں فکرِ آخرت نصیب فرمائیں۔
(آمین یارب العالمین) ۔