Helping Others!

*نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا..*

*میں نے فخریہ انداز میں بابا جی سے کہا کہ میرے پاس اچھا بینک بیلنس ہے، دو گاڑیاں ہیں، بچے انگریزی اسکول میں پڑھتے ہیں۔*
*عزت، مرتبہ، ذہنی سکون، الغرض دنیا کی ہر آسائش مجھے میسر ہے۔*

*بابا نے نظر بھر کر مجھے دیکھا اور بولے:*
*”معلوم ہے یہ کرم اس لیے ہوا کہ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔”*

*میں نے وضاحت چاہی۔ بابا کہنے لگے کہ میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔*

*اماں اپنی بُک (مٹھی) بھر کر مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں، ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کر مستیوں میں لگ جاتا۔*
*میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے، بغیر محنت کئے، اسے اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔*

*ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حسب معمول اماں آئیں اور دانوں کی بُک بھر کر مرغے کی طرف بڑھیں۔ اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی، مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔*

*اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئیں اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا، اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں، کبھی شمال تو کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کر دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔*

*بابا نے کچھ توقف کے بعد پوچھا، بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟*

*میں نے فٹ سے جواب دیا: نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا*۔ *بابا نے کہا: بالکل ٹھیک ۔*

*یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کردے گا؛ اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔*

*تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑدیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولے،*
*’’پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ۔”*
* سن لے:*
*”اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا، ان سے مسکرا کر بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا، کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو۔ تو بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کرکے امر ہو جائے گا۔‘‘*

*یہ کہہ کر بابا برق رفتاری سے مین گیٹ سے باہر نکل گئے… اور میں سر جھکائے زاروقطار رو رہا تھا۔*
*اور دل ہی دل میں رب العزت کا شکر ادا کر رہا تھا کہ بابا نے مجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا۔*

*اللہ ہمیں آسانیاں عطاء فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے، آمین۔*

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *