Independence Day !

پاکستان کیسے بنا ؟
He Who Loves not his country Cant Love Nothing.
(مدینہ شریف سے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منظوری پانے والا دنیا کا واحد اسلامی ملک میرا آپ کا پاکستان) ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب کامیابی کے راز سے انتخاب مسکان رومی
پیر سید نصیر الدین گولڑوی علیہ الرحمہ ایک مقامی رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ تحریک پاکستان کے وقت چند دوسرے علمائے کرام اور مشائخ کی طرح میرے دادا محترم بابوجی ﴿حضرت محی الدین گیلانی المعروف بابو جی رحمۃ اللہ علیہ﴾ کے خیال میں بھی قائد اعظم صاحب کی ظاہری غیر شرعی شخصیت اور اسلام کے نام پر خطے کا حصول اس سے قائد کی شخصیت کے غیر شرعی پہلو کھٹکنے لگے- اسی دوران دادا حضور اجمیر تشر یف لے گئے- وہاں قیام کے دوران ایک مخلص نے آکر آپ سے عرض کی کہ :-
’’حضرت! سرکار دو عالم ﴿w﴾ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے- آپ ﴿w﴾ کرسی پر تشریف فرما ہیں، سامنے میز پر ایک فائل پڑی ہوئی ہے چند لمحے بعد پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک شخص آپ ﴿w﴾ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور آپ ﴿w﴾ وہ فائل اس شخص کو تھما کر فرماتے ہیں کہ یہ ’پاکستان کی فائل ہے‘ وہ شخص کی تصویر دیکھ کر بابو جی سے عرض کی کہ حضرت یہ وہی شخص ہے جسے میں نے رات خواب میں سرکار دو عالم ﴿w﴾ کی بارگاہ اقدس سے فائل لیتے دیکھا تھا – وہ جناب محمد علی جناح تھے تو اس دن سے حضرت بابوجی رحمۃ اللہ علیہ مسلم لیگ کے حمایتی بن گئے- محض اس لئے کہ ان پر سرکار دو عالم ﴿w﴾ کا ہاتھ تھا‘‘- ﴿ماہنامہ ساندل سویر اسلام آباد اکتوبر ۷۹۹۱ئ ،ص ۵۱﴾
’’ میرے آقا و مولا رسول اللہ (ﷺ) کی یہ بشارت کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے، کیا اِس بات کی ضمانت نہیں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو اللہ کے آخری نبی (ﷺ) نے منتخب فرما لیا تھا-اسی نسبت کی وجہ سے اقبالؒ فرماتے ہیں :
میرِ عرب ؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اِسی طرح کا ایک واقعہ پروفیسر سرور شفقت حضرت قائدِ اعظم کے متعلق بیان کیا ہے کہ جب قائد اعظم انگلستان سے مستقل طور پر ممبئی آگئے تو میں آپ سے ملاقات کیلئے گیا،قائد اعظم ؒ گہری سوچ میں گم تھے،مجھے دیکھ کر فرمایا : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے مجھے بلایا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے لیاقت علی خان مجھے لے کر آئے-بے شک ان دونوں حضرات کی کاوشیں ہیں لیکن اصل بات جو مجھے یہاں لے کر آئی ہے وہ کچھ اور ہی ہے جومیں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی-تمہیں اس شرط پر بتانا چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں اسے ظاہر نہیں کرو گے کیونکہ شائد کچھ لوگ اس بات کو صحیح خیال نہیں کریں گے-پھرجب میں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا تو انہوں نے فرمایا:
’’ مَیں لندن میں اپنے فلیٹ میں سویا ہوا تھا، رات کا پچھلا پہر ہوگا، میرے بستر کو کسی نے ہلایا، میں نے آنکھیں کھولیں ، ادھر اُدھر دیکھا، کوئی نظر نہ آیا میں پھر سوگیا- میرا بستر پھر ہلا میں پھر اٹھا، کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا اور سوچا’شائد زلزلہ آیا ہو- کمرے سے باہر نکل کر دوسرے فلیٹوں کا جائزہ لیا، تمام لوگ محو استراحت تھے میں واپس کمرے میں آکر سوگیا- کچھ دیر ہی گزری تھی کہ تیسری بار پھر کسی نے میرا بستر نہایت زور سے جھنجھوڑا میں ہڑ بڑا کر اٹھا، پورا کمرہ معطر تھا-میں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ :
An extraordinary Personality is in my room ”.
’’ایک غیر معمولی شخصیت میرے کمرے میں موجود ہے‘‘-
“Who are you?”
’’(میں نے کہا کہ )آپ کون ہیں؟‘‘
“I am your Prophet Muhammad”.
’’(جواب آیا( ’’میں تمہارا پیغمبر محمد (ﷺ) ہوں ‘‘-
’’ میں جہا ں تھا وہیں بیٹھ گیا دونوں ہاتھ باندھ لئے فوراً میرے منہ سے نکلا ‘‘-
“Peace be upon you, my Lord”
’’ آپ پر سلام ہو میرے آقا (ﷺ)‘‘-
ایک بار پھر وہ خوبصورت آواز گونجی:
Mr. Jinnah! You are urgently required by the Muslims of the sub-continent and I order you to lead the freedom movement. I am with you. Don’t worry at all. You will succeed in your mission In sha Allah”.
’’جناح! برِا عظم ایشیاء کے مسلمانوں کو تمہاری فوری ضرورت ہے اورمَیں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تحریک آزادی کی قیادت کرو، مَیں تمہارے ساتھ ہوں تم بالکل فکر نہ کرو، انشاء اللہ تم اپنے مقصد میں کامیاب رہو گے‘‘-
’’ قائد فرماتے ہیں کہ میں ہمہ تن گوش تھا، صرف اتنا کَہ پایا :
“Yes my Lord”.
’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر میرے آقا (ﷺ)‘‘ –
میں مسرت وانبساط اور حیرت کے اتھاہ سمندر میں غرق تھا کہ کہاں آپ (ﷺ) کی ذات اقدس اور کہاں مَیں اور پھر یہ شرف ہم کلامی، یہ عظیم واقعہ میری واپسی کا باعث بنا۔ ‘‘-
عام طور پرکسی بھی چیز کی عظمت کا اندازہ اس کی بنیاد اور ماخذ سے لگایا جاتا ہے، مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کو جو عظمت و رفعت حاصل ہے اس کی بنیاد بھی یہ ہے کہ مکۃ المکرمہ میں خانہ کعبہ کی تعمیر باذن اللہ تعالیٰ سیّدنا ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے دستِ مبارک سے ہوئی اورمدینہ منورہ میں فخرِ کون و مکان سیّدنا رسول اللہ (ﷺ) نے قدم رنجا فرمایا اور آپ (ﷺ) کا وجود اقدس وہاں جلوہ فرما ہے-اسی تناظر میں جب مملکتِ خداداد پاکستان کی بات کی جائے کہ مدینہ منورہ کے بعد یہ دوسری نظریاتی مملکت ہے جو نظریہ’’ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آئی تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ پاکستان کے جمعۃ المبارک اور 27 رمضان المبارک کی شب کو معرض وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی حفاظت کیلئے ’’سلطان الفقر ہستی‘‘ کا ظہور اپنے ضمن میں کئی حکمتوں کو سموئے ہوئے ہے جس میں ہرذی شعور کے لیے ا س کے ذہن میں ابھرنے والے کئی سوالوں کا جواب پنہاں ہے- اسی طرح جب ہماری نظر ان خوبصورت نسبتوں کی طرف جاتی ہے جو اللہ پاک نے پاکستان کو مدینہ الرسول (ﷺ) سے عطافرمائی ہیں تو ہمارے ذہن کے گوشے ورطۂ حیرت میں چلے جاتے ہیں مثلاً:
v پاکستان کا اردو ترجمہ ’’مدینہ طیبہ‘‘ بنتا ہے وہ یوں کہ پاکستان فارسی کے دو لفظوں ’’پاک اور استان‘‘ کا مجموعہ ہے- استان کا معانی ’’رہنے کی جگہ‘‘ یعنی ’’شہر‘‘ کے ہیں اور پاک کو عربی میں طیب کہتے ہیں یعنی پاکستان کا عربی ترجمہ ہی ’’مدینہ طیبہ‘‘ بنتا ہے-
v پاکستان کو بین الاقوامی رابطے کے لئے ملنے والا کوڈ 92 ہے، *علم الاعداد سے آگاہی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ 92کامطلب ’اسم محمد (ﷺ)‘ بنتا ہے یعنی پاکستان میں اسم محمد (ﷺ) کے بغیر کوئی بات نہیں کر سکتا- اگر پوری دنیا کےنقشوں کا باریک بینی سے مطالعہ کر یں تو، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے نقشے پر ’’اسم محمد (ﷺ)‘‘ بنتا ہے-
آئیے اپنے رب کا شکر ادا کیجے سجدہ شکر بجا لائیے ۔ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں رہنے کو ایک ایسا ملک ملا جس کی بنیاد اور منظوری آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے ہوئی ۔ اپنے عشق اور عقیدے کو مضبوط کیجیے ۔ جہاں ہزاروں نظریات آئے دن جنم لے رہے ہیں وہاں ملک دشمن عناصر نے ہمارے ہی ملک میں کچھ میر جعفر و صادق تیار کر رکھے ہیں جنھیں بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے ۔ اپنے وطن سے محبت کیجے ۔ اس کی قدر کیجئے ۔ یقین جانیے جو قومیں اپنی آزادی کی حفاظت نہیں کرتیں وہ جلد غلام بنا لی جاتیں ہیں ۔ آج جو لوگ اپنی تہذیب و ثقافت کو چھوڑ کر یورپ کے کلچر اور عیاشی کے دلداد بنے ہیں انہیں کیا خبر اس ملک نے کن مصائب کا سامنا کیا ہے ۔ یہاں گردنیں ہی نہیں کٹیں بلکہ عزتیں بھی لٹی ۔دودھ پیتے بچوں کو ماوں کے ہاتھوں سے چھین کر انہیں ہوا میں اچھالا جاتا اورنیزے کی نوک پرتسبیح کی مانند پرو دیا جاتا ۔ یہ اسلاف کی وہ قربانیاں ہیں جن کی بدولت آج ہم سکون سے جی رہے ہیں ۔جس طرح انسان کا اپنا گھر نا ہو وہ بے چین رہتا ہے اسی طرح جن کا وطن نہیں ہوتا ان کی زندگی کا ہر لمحہ ہی مسافری ہوا کرتا ہے ۔پاکستان نا صرف ہمارا وطن ہے بلکہ ہمارا گھر ہے ۔شکریہ ۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
قیام پاکستان کے حوالے سے ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی ایک منفرد تحریر ۔ جیسے پڑھ کر اپنی قسمت پر نازاں ہوں کہ الحمد للہ ہمیں ایسا ملک ملا جس کی بنیاد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی ۔ پڑھ کر اس روحانی تحریر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں ۔ یہ تحریر ان لوگوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے جن کے آباو اجداد نے اس ملک کو گناہ کہا ہے ۔سر تبسم آپ کی اس تحریر کی واقعی آج ضرورت تھی ۔ پڑھ کر دل خوش ہو گیا .. اصلاح خود سے شروع کریں جلد معاشرہ بدل جاے گا .محبت اخوت اور احساس عام ہو گا . اچھی بات اگے پھیلانا بھی صدقہ ہے ..

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *