میں کبھی کسی کو یہ کہتے ہوئے سن لوں کہ اس کی نماز فوت ہو گئی، تو میرا دل کانپ سا جاتا ہے۔ بعض دفعہ کچھ غور کرنے پر میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، اور مجھے لگتا ہے واقعی اس شخص کا کوئی فوت ہو گیا ہے۔
مجھے یاد ہے ایک بار میں نے ایک ستر پچھتر سالہ بزرگ کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ فجر کا وقت نکل رہا تھا، یا نکل چکا تھا۔ وہ بزرگ وضو سے فارغ ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہونے لگے، تو کوئی اور صاحب کہتے ہیں، بڑے میاں نماز فوت ہو چکی ہے، اب دن نکلنے کا انتظار کریں، اور قضا پڑھیں۔
”نماز فوت ہو گئی؟“ اس بوڑھے نے کچھ ایسی آواز میں کہا، کہ میں آج تک بھلا نہیں سکا اس آواز کو۔ کیسا تاسف اور کیسا افسوس تھا اس کی آواز میں۔
مجھے نماز کے رہ جانے، چھوٹ جانے، یا نہ پڑھ سکنے کے لئے ’فوت ہونے‘ کے الفاظ استعمال کرنے کی سمجھ تو نہیں آ سکی، کہ نماز کی اصل کیا ہے، جس کے گذر جانے پر، جس کے وقت نکل جانے پر، فوت ہونے کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، لیکن محسوس یہی ہوتا ہے، کہ کچھ نہ کچھ مر جاتا ہے انسان میں، مر جاتا ہو گا، ضرور مر جاتا ہو گا۔ نماز کا وقت نکل جانے پر، انسان کے اندر کوئی نہ کوئی چیز، کوئی نہ کوئی احساس، کوئی نہ کوئی رویہ، کوئی نہ کوئی کیفیت، ضرور مر جاتی ہو گی، جو نماز نکل جانے پر ’فوت ہو جانے‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نماز اپنی تمام تر خوشبوؤں اور تازگیوں کے ساتھ، بر وقت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔