تحریر قاسم علی شاہ
کام، اللہ کا انعام
’’اگر آ پ ہمیشہ خوش رہنا چاہتے ہیں تو وہ کام کریں جو آپ کو پسند ہے ۔‘‘
’’دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات پیر کے دِن صبح آٹھ سے ایک بجے کے درمیان ہوتی ہیں ۔‘‘یہ ایک جدید ریسرچ کے نتائج ہیں ۔جس میں محققین نے اس کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہو اکہ پچھلا دن اتوار کا گزرا ہوتا ہے،جس میں انسان سیر وتفریح اور آرام کرتا ہے ۔ان سب کو چھوڑکر اگلے دن پھر سے کام پر جانا اور ایک نئے سرے سے ہفتے بھر کی روٹین بنانا ان کے لیے بہت پریشان کن ہوتا ہے۔وہ بے حد تناؤ کی کیفیت میں آجاتے ہیں، ان کا جسمانی اوراعصابی نظام خراب ہوجاتا ہے اور یوں ۔۔ہارٹ اٹیک کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
بحیثیتِ معاشرہ ہماری اجتماعی سوچ یہ ہے کہ جب ہم ’’کام‘‘ کا لفظ سنتے ہیں تو پہلا احساس جو ہمارے دل و دماغ میں آتا ہے وہ ’’تناؤ‘‘اور’’ بوجھ‘‘ کاہوتا ہے ۔ جوکہ درست نہیں،کیونکہ کام ، اللہ کا انعام ہے اور جو انسان ’’بے کام‘‘ ہوتا ہے تو طرح طرح کی پریشانیاں اس کو گھیر لیتی ہیں اور بہت جلد وہ ایک ذہنی مریض بن جاتا ہے۔
اپنا تصور درست کریں :
کام کے بارے میں جو یہ منفی تاثر پایا جاتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس نظریے اور تصور کو تبدیل کیا جائے ۔یہ بات یاد رکھیں کہ انسان کے مائنڈکا کوئی مائنڈ نہیں ہے بلکہ اس کا مائنڈ وہی ہے جو ہم بناتے ہیں ۔ہم نے کام کے بارے میں منفی جملے اس قدر زیادہ سنے ہوتے ہیں کہ پھرہمارا تصورہی یہ بن جاتا ہے کہ کام ایک بوجھ کے سو اکچھ نہیں ۔
کام سے ہم کیا فوائدحاصل کرتے ہیں ؟
کام کے ذریعے ہمیں مندرجہ ذیل فوائد ملتے ہیں :
(1)رزقِ حلال
یاد رکھیں کہ رزق کا مطلب صرف کھانا پینا نہیں بلکہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔انسان کی راحت کی تمام چیزیں اس میں شامل ہیں ۔کسی کے پاس رزق حلال ہے اور اس کو معلوم بھی ہے تو یہ ایک بہت بڑی خوش نصیبی ہے ۔
(2 )عزت
ہم اپنے کام سے عزت کماتے ہیں جو کہ ایک کمال کی چیز ہے ۔ دوایسے انسان جن کا کام ایک ہے توایسا ممکن ہے کہ ایک کی عزت زیادہ اور دوسرے کی کم ہو۔لہٰذا اگر آپ اپنے کام سے عزت کماتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔
(3)سماجی رابطہ
کام کی وجہ سے ہم سماجی طورپر ایک دوسرے سے واقف اور ایک دوسرے سے مربوط(Connected) ہوتے ہیں ،اس کو P R یا Social Bank بھی کہا جاتا ہے ۔یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے ،کیونکہ یہی لو گ انسان کے دکھ درد اور غم و خوشی میں کام آتے ہیں ۔
(4)پہچان
کام کی وجہ سے اللہ آپ کو ایک شناخت اور پہچان دیتا ہے۔یہی پہچان آپ کے لیے مزید مواقع کھولتی ہے اور آپ زندگی میں آگے بڑھتے ہیں ۔
( 5)سیکھنا
کام کی وجہ سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔وہی انسان ترقی کرسکتا ہے جو سیکھتا ہے او ر جو سیکھنا چھوڑدیتا ہے وہ ترقی بھی چھوڑدیتا ہے۔قابل انسان اپنے کام کی بدولت کتنے سارے” تالے” کھول لیتا ہے کیونکہ وہ مسلسل سیکھنے کی کوشش کرتا رہتاہے۔
(6) مصروفیت
دنیا کا سب سے بڑا عذاب انسان کا فارغ بیٹھنا ہے ۔آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ اگر آپ کے پاس مصروفیت نہیں ہے تو یہ کتنی خوف ناک چیز ہے ۔ انسان بالکل ہی فارغ بیٹھ جائے یہ بہت بڑاعذاب ہے۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ میری زندگی کے مشکل ترین حالات اور پریشانیوں کی کٹنے کی وجہ میری مصروفیت تھی۔اگر میں مصروف نہ ہوتا تو شاید شدید ترین ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوجاتا۔ایک تکلیف کو لے کر بیٹھ جانا اور اس کے بارے میں مختلف اندیشے سوچتے رہنا ،یہ انسان کی تباہی کے لیے کافی ہے۔
(7)صحت
مصرو فیت انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے بہت مفید ہے ،کیونکہ اس کی وجہ سے انسان کے ذہنی اور جسمانی اعصاب چاق وچوبند رہتے ہیں ۔میں کسی انسان کو بھی یہ تجویز نہیں دیتا کہ وہ ریٹائرڈ ہوجائے ۔میرے خیال میں انسان کو ساری زندگی کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے ۔ہاں اگر یہ صورت ہو کہ وہ کام کررہا ہے مگر اس سے پیسے نہیں لے رہا اوراس کودلی خوشی مل رہی ہے توپھر اس کو ریٹائرڈ نہیں ہونا چاہیے ۔
میرے والد صاحب جب ریٹائرڈ ہوگئے تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ نے فارغ نہیں بیٹھنا ہم نے انہیں سربراہ بناکر خاندان اور سماجی خدمات کی ایک لسٹ بناکر دی۔ان کو نوکری سے ریٹائرڈ ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں لیکن وہ تب سے آج تک مصروف ہیں ۔
(8) خود اعتمادی
کام کی وجہ سے ایک اور بڑی نعمت آپ کو خوداعتماد ی کی ملتی ہے۔آپ کو یہ اعتماد ہوتا ہے کہ میری محنت اور قابلیت سے ایک نتیجہ نکل رہا ہے اورعزت ، شہرت ،دولت اور ذہنی پریشانیوں سے نجات آپ کوصرف آپ ہی کی وجہ سے مل رہی ہے ۔
(9)خودداری
کام کی وجہ سے آپ مانگنے والے نہیں بلکہ دینے والے بن جاتے ہیں ۔ہم لوگوں میں اجتماعی طورپر بہت ساری کمزوریاں ہیں مگر ایک خوبی ہم سب میں یہ ہے کہ ہم اپنی کمائی سے اپنوں کی مدد کرتے ہیں ۔ہم اپنے کھانے دوسروں کے ساتھ Share کرتے ہیں ۔ کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کسی کو پڑھایاہوگا ۔کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مالی مدد کی ہوگی ، کئی لوگوں نے کسی کو حج، عمرہ کروایا ہوگا۔یہ سب تعاون کی وہ صورتیں ہیں جو ہم اپنے کام کی بدولت ہی دوسرے لوگوں کے ساتھ کرسکتے ہیں ۔
(10)یکسوئی
کام انسان میں یہ خوبی پیدا کردیتا ہے کہ وہ فوکس(Focus) اور یکسوئی کاحامل ہوجاتا ہے اور یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انسان کامیاب ہوئے ہیں ، ان میں یکسوئی اور فوکس رہنے کی عادت تھی۔
کیا آپ اپنے کام سے محبت کرتے ہیں ؟
ذیل میں دی جانے والے نکات کی ایک لسٹ بنائیں اور اپنا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آ پ کے اندر یہ چیزیں موجود ہیں ؟اگر جواب ہاں میں ہے تو پھرآپ واقعی اپنے کام سے محبت کرتے ہیں
(1)تیاری :
جو انسان اپنے کام سے محبت کرتا ہے وہ خود کو تیار کرتا ہے ۔آپ ٹیچر ، پروفیسر یا لیکچرار ہیں تو آپ نے خود کو تیار کرنا ہے ۔آپ نے روز مطالعہ ،ریسرچ اور نیا کچھ سیکھنا ہے ۔تیاری کا مطلب انسان کا خود کو جسمانی اور ذہنی طورپر تیار کرنا یعنی اپنی Personality اور اپنے Skills پر بھی کام کرنا ،آپ ذرا ریسرچ کرکے دیکھیں دنیا میں جتنے بھی ٹاپ کی سیلز کرنے والے لوگ ہیں ،ان کے پاس سیلز کی ڈگری نہیں لیکن اسکلز اور قابلیت بہت ہے۔
تیاری کا مطلب آپ کا بہترین رویہ بھی ہے ۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ کسی زمانے میں میں ایک سٹیشنری کی دکان پربچوں کے لیے چیزیں لینے جایا کرتاتھا ،اس دکان کا مالک نفیس لباس پہننے والا انسان تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا رویہ بھی نفیس تھا۔آتے جاتے اس کے ساتھ میری جان پہچان بن گئی اور پھر اس کی شائستہ رویے کی وجہ سے میرا کسی اور دکان سے خریداری کو دل ہی نہیں کرتا تھا۔ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ وہ اللہ کو پیا را ہوگیا ہے ،تو میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔کیونکہ میرے سامنے وہ رویہ آگیا جو اس شخص کا تھا ،جو وہ اپنے کسٹمرز کے ساتھ اپنا تا تھا ۔
اہلِ جاپان کی اخلاقیات میں ہے کہ ’’ گاہک ،خدا ہوتا ہے۔‘‘اور اسی وجہ سے وہ اپنے کسٹمرز کو بھرپور عزت دیتے ہیں ۔اسلام کانظریہ اگرچہ یہ نہیں ہے کیونکہ ہم راز ق صرف اللہ کو سمجھتے ہیں مگر ۔۔چونکہ گاہک بھی ایک طرح سے رزق کا ذریعہ ہے اس لیے اس کی بھرپور عزت کرنی چاہیے۔کام کے لیے تیار انسان اپنے کام اور کام سے متعلق تمام لوگوں کی عزت بھی کرتاہے۔
(2)مسکراہٹـ
یعنی کام کرکے خوش ہونا ،میں اپنے کام سے محبت کرتا ہوں ،اسی لیے روز کام کرتا ہوں اور رو ز خوش ہوتا ہوں۔اپنے کام سے انرجی لینی چاہیے ۔ہمارا فلسفہ الٹ ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ کام تھکاتا ہے حالانکہ یہ غلط فہمی ہے ۔آپ کو اگرکام سے محبت ہے تو وہ آپ کو انرجی دے گا۔
(3)ترقی
اپنی غلطیوں کو سدھارنا اور آگے بڑھ کر ترقی کرنا ،یہ وہی انسان کرسکتا ہے جس کو اپنے کام سے محبت ہوتی ہے۔
(4)قربانی
جس چیز سے انسان کو محبت ہوتی ہے وہ اس کے لیے قربانی بھی دیتاہے ۔وہ پھر حالات اور موسم کی پروا نہیں کرتا اور اس دن بھی اپنے کام میں ہوتا ہے جو دن کام کرنے کا نہیں ہوتا۔میں آپ کو ایک نسخہ بتا رہا ہوں ’’اپنے کام سے عشق کریں ترقی خود ہی شروع ہوجائے گی۔‘‘
(5)نئی چیزوں کو خوش آمدید
اگر آپ کو اپنے کام سے عشق ہے تو آپ نئی چیزوں کو Welcome کریں گے اور جس کو کام سے محبت نہیں وہ کہے گا کہ ’’بس جو ہوچکا وہ ہوچکا ،اب مزیدکی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘خوش آمدید کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو اپ گریڈ کرتا رہتا ہے ۔نئے Ideas ڈھونڈتا ہے اور جو کوئی اس کے کام کے متعلق نیا آئیڈیا دیتا ہے اس کو خوش دِلی کے ساتھ قبول کرکے اس کا احسان مند بھی ہوتا ہے۔
(6)تنقید سننے کا حوصلہ
جو اپنے کام سے محبت کرتا ہے وہ تنقید بھی سنتا ہے۔ جو انسان تنقید کو نظر انداز کرتا ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ وہ اپنے کام سے محبت نہیں کرتا۔دنیا میں سب سے عقل مند انسان وہ ہے جو صرف دیکھ کر سیکھ جائے ،جو Timing نوٹ کرے ، منصوبہ بندی اورمشاہدہ کی بدولت خود کو Improve کرے ۔
(7)گلہ شکوہ نہیں کرتا
انسان جس سے محبت کا دعوا کرتا ہے اس سے شکوہ کبھی نہیں کرتا ،اگر شکوہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت نہیں ہے ۔دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو حل پر فوکس کرتے ہیں اور کچھ مسئلے پر۔عقل مند وہ ہے جو Solution اور حل پر فوکس کرے نہ کہ مسائل پر ۔کیونکہ مسائل پر فوکس جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنا حل سمجھ میں نہیں آتا۔حل ڈھونڈنے کے لیے ضروری ہے کہ حل پر فوکس کیا جائے ۔
(8)ریٹائرمنٹ کے بارے میں نہیں سوچتے
ایسے لوگ ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اپنے کام پر برقرار رکھے کیونکہ ان کو اپنے کام سے محبت ہوتی ہے ۔قدرتی چیز ہمیشہ رہتی ہے وہ کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتی، انسان کا جذبہ ، عزم اور ہمت کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے۔آپ اگر ایک کام کررہے ہیں اور آپ کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسر راستہ نہیں ہے تو پھر اس کو روکر نہ کریں بلکہ اپنی محبت بنالیں اوریہ بات بھی یاد رکھیں کہ محبت میں قربانی بھی دیناپڑتی ہے،اس لیے جو بھی پریشانی یا کوئی مسئلہ آئے اس کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کریں۔
باعزت کام (روزگار/نوکری)اللہ کا ایک انعام ہے ۔دنیا میں خوش نصیب انسان وہ ہے جس کو کام اس قدر تھکادے کہ وہ پرسکون نیند سوئے،کیونکہ پچھتاوا ، شک اور غلطی انسان سے سکون کے ساتھ ساتھ نیند بھی چھین لیتے ہیں۔اپنے کام سے ہمیشہ حلال رزق کمائیں کیونکہ انہی پیسوں سے بچے پلتے ہیں ، گھر کے بل ادا ہوتے ہیں،والدہ کی دوائی آتی ہے ، بہن بھائیوں کی پڑھائی کی فیس اداہوتی ہے اورانہی سے ہم حج و عمرہ بھی کرتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے کام کوبوجھ نہیں بلکہ نعمت سمجھا جائے۔اس پر خدا کا شکر بجالائیں اور ہمیشہ باوضو ہوکر کریں یہی کام کی عزت ہے اور جو انسان بھی اپنے کام کی اِس طرح عزت کرتا ہے وہ ہمیشہ ترقی اور کامیابی پاتا ہے